یومِ قائد اعظم ! آج استحکام پاکستان کیلئے وسیع تر قومی اتحاد کی ضرورت ہے

آج گیارہ ستمبر کو بانیِ پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کا 76 واں یومِ وفات قومی اور ملی اتحاد و یگانگت کے جذبے کے ساتھ عقیدت و احترام سے منایا جارہا ہے۔ اس موقع پر آج سرکاری اور نجی سطح پر یومِ قائد کی مختلف تقریبات کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی جانب سے یوم قائداعظم کے حوالے سے آج خصوصی ایڈیشنز اور پروگرامز کا اہتمام کیا گیا ہے۔ بانیِ پاکستان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے آج دن کا آغاز کراچی میں مزار قائد پر گارڈ کی تبدیلی سے ہوگا۔ اس موقع پر پاک فوج کا ایک چاق و چوبند دستہ سلامی پیش کرے گا۔ قائداعظم کی روح کو ایصال ثواب کے لیے بھی آج خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اس موقع پر ملک کی بقاءو سلامتی اور ترقی و خوشحالی کی بھی دعائیں مانگی جائیں گی۔
قیام پاکستان کے صرف ایک سال ایک ماہ بعد بانیِ پاکستان کی وفات حسرت آیات ایک ایسا قومی المیہ ہے جس کے اثرات آج تک محسوس کیے جا رہے ہیں کیونکہ قیام پاکستان کے بعد قوم کو درپیش سنگین مسائل کے حل اور اندرونی و بیرونی سازشوں سے نمٹنے کے لیے قائداعظم کی رہنمائی کی اشد ضرورت تھی اور مہاجرین کے جم غفیر، بھارت کی اثاثوں کی تقسیم میں ریشہ دوانیوں اور باونڈری کمیشن کے متعصبانہ و غیرمنصفانہ فیصلوں پر نتیجہ خیز بات نہ ہو پائی جن کے نتیجے میں کشمیر کے ہولناک تنازعہ نے جنم لیا اور گورداسپور سمیت پنجاب کے متعدد علاقے پاکستان کا حصہ نہ بن سکے۔ اسی طرح ملکی آئین کی تدوین اور ملک کی مختلف اکائیوں کے مابین بنیادی معاملات پر اتفاق رائے کے حصول میں جو تاخیر ہوئی، وہ قائد کی وفات کی وجہ سے مزید الجھ گئے۔ قائداعظم کی زندگی میں نہ تو اسٹیبلشمنٹ کو جمہوری اداروں اور سیاسی نظام میں دخل اندازی کا موقع ملتا اور نہ ملک کے مختلف سیاسی و مذہبی طبقات اور جغرافیائی اکائیوں میں اختلاف کی خلیج گہری ہوتی کیونکہ قوم کے بھرپور اعتماد، احترام اور عقیدت کے علاہ خداداد بصیرت کی وجہ سے قائد نہ صرف اتحاد و یکجہتی کی علامت تھے بلکہ لاینحل مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت سے بھی مالامال تھے اور یہ صلاحیتیں قوم کی کشتی کو مسائل کے طوفان سے نکالنے میں صرف ہوتیں۔ 
صرف ایک سال کے مختصر عرصہ میں قائداعظم رحلت فرما گئے اور ساڑھے تین چار سال بعد ان کے جانشین لیاقت علی خان بھی شہید ہو گئے۔ قائداعظم کے انتقال کے بعد مسلم لیگ بھی ملک کی بانی جماعت کے طور پر اپنا مضبوط اور موثر کردار ادا کرنے کے بجائے حصوں بخروں میں بٹتی چلی گئی اور اس کا فائدہ ان سیاسی ومذہبی قوتوں نے اٹھایا جن میں سے بعض یا تو قیام پاکستان کی مخالف تھیں یانظریہ پاکستان سے اتفاق نہیں کرتی تھیں۔ مسلم لیگ کی تقسیم، قائداعظم کے ساتھیوں کی باہمی سرپھٹول، آئین کی تدوین میں بے جا تاخیر اور ملک کے مختلف حصوں میں جنم لینے والے نسلی، لسانی، علاقائی اور فرقہ ورانہ اختلافات کی وجہ سے جمہوری نظام کمزور ہوا اور سول و خاکی بیوروکریسی نے پرپرزے نکالنے شروع کیے۔ قائداعظم نے انگریز اور ہندو سے لڑ کر ذات برادری اور فرقے کی بنیاد پر منقسم مسلمانوں کے انبوہِ کثیر کو ایک قوم بنایا تھا اور اپنی پرامن، سیاسی جدوجہد، مثالی بصیرت، امانت و دیانت اور مسلم عوام کے تعاون سے ایک ایسی آزاد ریاست کا قیام ممکن بنایا جسے انگریز اور ہندو پریس دیوانے کی بڑ قرار دیتا تھا مگر ان کی وفات کے بعد مفاد پرست سیاست دانوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے اس ارضِ وطن کو جدید اسلامی جمہوری فلاحی ریاست بنانے سے متعلق قائداعظم کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہونے دیا اور مملکت خداداد کو اپنی خواہشات کا اسیر بنالیا۔
قائداعظم نے مسلم قوم کو متحد کیا، اسے ایک نصب العین دیا اور الگ وطن کے قیام کے لیے پرامن جمہوری جدوجہد کی راہ دکھائی، قیام پاکستان کے بعد انھوں نے آئین کی تشکیل کا معاملہ عوام کے منتخب نمائندوں پر چھوڑا اور خود کو بطور گورنر جنرل سیاسی سرگرمیوں کے علاوہ مسلم لیگ کی صدارت سے الگ کرکے پارلیمانی جمہوریت کی جانب پیش رفت کی جس میں پارلیمنٹ خودمختار اور عوام کے منتخب نمائندے ہی قومی معاملات اور حکومتی امور چلانے کے حق دار ہوں لیکن بدقسمتی سے قائداعظم کی وفات اور ان کے جانشینوں کی کمزوریوں کی وجہ سے 1958ءمیں ملک کو جمہوریت کی پٹڑی سے اتار دیا گیا اور پھر 1958ءسے لے کر 2007ءتک چار مارشل لاوں نے اس ارضِ وطن کی عمر عزیز کے 33 سال غارت کر دیئے۔ مشرف کے 2008ءمیں ختم ہونے والے فوجی اور نیم جمہوری دور کے بعد آج تک جمہوریت کا تسلسل قائم ہے۔ 2008ءکے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی پر قوم نے اعتماد کیا، وہ توقعات پر پورا نہ اتر سکی تو 2013ءمیں عوام نے پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے ہاتھ میں زمامِ اقتدار تھما دی مگر بدقسمتی سے پاکستان اس منتخب جمہوری دور میں بھی شدید بحرانوں اور مسائل کی آماجگاہ بنا رہا۔ حکمران اقبال و قائد کے وارث ہونے کے ضرور دعویدار تھے لیکن ملک و قوم کو درپیش مشکلات سے نجات دلانے کی ان میں وہ کمٹمنٹ مفقود ہی رہی جس کے حالات متقاضی تھے۔ قائد کی جانشینی کے دعوے دار مسلم لیگی حکمران بھی عوام کی توقعات اور قومی سلامتی کے تقاضوں پر پورا نہ اتر سکے تو قوم نے 25 جولائی 2018ءکو پی ٹی آئی کو مینڈیٹ دے کر اس کے قائد عمران خان کو مسندِ اقتدار پر بٹھا دیاجنھوں نے اس ارضِ وطن کو ریاست مدینہ کے قالب میں ڈھالنے کا اعلان و عہد کرکے بانیانِ پاکستان قائد و اقبال کے وضع کردہ قیام پاکستان کے مقاصد کی تکمیل کا بیڑا اٹھایا۔عمران خان سے قوم نے اسی بنیاد پر توقعات وابستہ کیں کہ انھوں نے سیاست میں آکر نئے پاکستان اور کرپشن فری سوسائٹی کا نعرہ لگایا تھا اور روایتی موروثی سیاست سے قوم کو خلاصی دلانے کا عہد کیا تھا مگر وہ اقتدار میں آکر ملک کی معیشت تو کیا سنوارتے، انھوں نے آئی ایم ایف کی شرائط کے ماتحت قوم کے لیے غربت، مہنگائی، بے روزگاری کے مسائل مزید گھمبیر بنا دیے۔ چنانچہ عوام کے اضطراب کو بھانپ کر اپوزیشن جماعتوں کو ان کے خلاف متحد ہو کر عدم اعتماد کی تحریک لانے اور ان کی حکومت ساڑھے تین سال بعد ہی ختم کرنے کا موقع مل گیا۔ مگر پی ڈی ایم نے بھی اقتدار میں آکر گھمبیر مسائل کے حل کے معاملہ میں عوام کی مایوسیاں بڑھائیں۔ آٹھ فروری 2024ءکو انتخابات ہوئے عوام کی طرف سے ایک بار پھر انہی جماعتوں کو مینڈیٹ دیا گیا مگر صورتحال میں بہتری نہیں آ سکی۔ آئی ایم ایف کی ناروا شرائط تسلیم کر کے عوام کا عرصہ حیات مزید تنگ کر دیا گیا۔ لوڈ شیڈنگ، اوور بلنگ، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ در اضافہ، ساری کڑیاں جا کے آئی پی پیز کی کیپسٹی پیمنٹ سے ملتی ہیں۔ان معاہدوں پر نظر ثانی کے لیے حکومت کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں کر سکی۔معیشت زبوں حال ہے۔جس کو درست کرنے کے لیے بار بار آئی ایم ایف کی درگاہ پر جھکنا پڑتا ہے جس کے بارے میں ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار کہہ چکے ہیں کہ آ ئی ایم ایف کی خواہش تھی کہ پی ڈی ایم حکومت ڈیفالٹ کر جائے۔ آئی ایم ایف سے نجات کے لیے کڑوا گھونٹ بھرنا ہی پڑنا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ اکھنڈ بھارت کی داعی ہندو بنیا لیڈر شپ نے ایک آزاد مملکت کی حیثیت سے پاکستان کا وجود شروع دن سے ہی قبول نہیں کیا۔ نہرو اس زعم میں تھے کہ پاکستان چھ ماہ بھی اپنے پاوں پر کھڑا نہیں رہ سکے گا اور واپس بھارت کی گود میں آگرے گا، اس مقصد کے تحت ہی برطانوی وائسرائے ہند لارڈ ماونٹ بیٹن کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے قطعی بے وسیلہ اور اقتصادی طور پر کمزور پاکستان قائداعظم کے حوالے کیا گیا جبکہ قائداعظم نے اپنی کمٹمنٹ کے تحت اسی کمزور معیشت والے پاکستان کو اپنے پاوں پر کھڑا کرکے دکھایا۔ اگر قائداعظم حیات رہتے تو پاکستان کی سلامتی کے خلاف بھارت کی کوئی سازش پنپ نہ پاتی مگر ان کے انتقال کے بعد ہندو بنیا لیڈر شپ کو پاکستان کی سلامتی کے خلاف اپنی گھناونی سازشیں پروان چڑھانے کا بھی نادر موقع مل گیا۔ یہ سازشیں آج جنونی مودی سرکار کے دور میں انتہاءکو پہنچ چکی ہیں جس نے قائداعظم کی قرار دی گئی شہ رگ پاکستان کشمیر پر اپنا مستقل تسلط جما کر پانچ سال سے زائد عرصہ سے کشمیریوں کو گھروں میں محصور کر رکھا ہے اور پاکستان ہی نہیں پورے علاقے کی سلامتی خطرے میں ڈال رکھی ہے۔
 ا±دھر پاکستان میں دہشتگردی کے سائے بڑھتے جا رہے ہیں۔ٹی ٹی پی کے جن دہشت گردوں کی کمر توڑ کے رکھ دی گئی تھی وہ پھر توانا ہو کر حملے کر رہے ہیں۔ دہشتگردی کے خلاف آپریشن عزم استحکام لانچ کر دیا گیا ہے۔ٹی ٹی پی کی پشت پنائی طالبان حکومت کی طرف سے کی جاتی ہے۔افغان امن عمل میں پاکستان کے موثر کردار کی بدولت جن افغان طالبان کی کابل حکومت میں واپسی ممکن ہوئی وہ آج پاکستان کے ساتھ طوطا چشمی کی نئی مثالیں قائم کرتے نظر آتے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کے انقلاب سے تبدیل شدہ اس خطے کی صورتحال اور طالبان حکومت کا ہمارے ساتھ طرز عمل اس امر کا متقاضی ہے کہ ہم افغان قیادتوں کو راہ راست پر لانے کی بہر صورت کوشش کریں۔
قائد اعظم کے وژن اور بصیرت کی داد دینا پڑتی ہے کہ آج سے پون صدی قبل جو کچھ انہوں نے اسرائیل کے حوالے سے کہا اس پر عالمی برادری نے توجہ دی ہوتی تو آج فلسطینی بدترین انسانی المیہ سے دو چار نہ ہورہے ہوتے۔قائد اعظم نے اسرائیل کو ناجائز بچہ قرار دیا تھا۔گزشتہ دس مہینے میں 41 ہزار فلسطینی اسرائیل کی بربریت کا نشانہ بن چکے ہیں۔او آئی سی کا عملیت پسندی سے گریز افسوسناک ہے۔
ہمارے ہاں سیاست میں برداشت تحمل اور بردباری کا فقدان ہے۔سیاستدان ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہیں۔ ہمارے مسائل مشکلات اور بحرانوں کی وجہ بھی یہی ہے۔معاشی و سیاسی استحکام اور مضبوط پاکستان کے لیے وسیع تر قومی اتحاد ،یکجہتی و یگانگت کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ہمیں قائد و اقبال کے تصورِ پاکستان کو حرزِجاں بنانا ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...