شیخ محمد انور
sheikhmanwar@gmail.com
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ ایک سیاستدان ہی نہیں قوم کے غم خوار ،درد دل رکھنے والے لیڈر تھے ۔ان کی دانائی نے بہت پہلے یہ را زپالیا تھا کے ہندستان نے انگریزوں سے آزادی حاصل کربھی لی تو ہندو اپنی اکثریت کی بناء پر مسلمانوں پر غلبہ وتسلط حاصل کرلیں گے۔ اس صورت میں مسلمان صرف نام کے ہی آزاد ہوں گے ۔اپنی زندگی کے آخری آٹھ دس برسوں میں وہ اس حوالے سے بے حد فکر مند تھے کہ بر صغیر کے مسلمانوں کی آنے والی نسلوں کی زندگی ہندوئوں کی غلامی میں نہ کٹ جائے اور ان کا دینی، تہذیبی اور تمدنی تشخص بھی برقرار نہ رہ سکے گا۔ وہ دوسرے درجے کے شہری بن کر رہ جائیں جن کا کوئی مستقبل نہ ہو اور جن پر ترقی کے سبھی دروازے بند رہیں۔ قائد اعظم کو کسی سے نفرت نہ تھی وہ سچے انسان دوست اور حقیقت پسند انسان تھے۔ وہ اپنے علم کی بناء پر اس نتیجے پر پہنچے کہ مستقبل میں تعصب، تنگ نظری اور غلبہ و تسلط کا ایک طوفان پرورش پارہا ہے جس کا ہدف برصغیر کے مسلمان ہوں گے۔ اس لیے اگر مسلمانوں کی دینی، تہذیبی اور تمدنی بقاء مقصود ہے تو پھر انہیں متحدہ ہندوستان نہیں بلکہ پاکستان کی آزاد اور خود مختار مملکت کی صورت میں آزادی ملنی چاہیے۔ جس پر ان کا مکمل اختیار ہو اور جہاں وہ اپنی دینی اور تہذیبی روایات کے مطابق زندگی بسرکرسکیں۔ آج کے دن قائد اعظم محمد علی جناح کی سیرت کا جائزہ لیا جائے تو اس میں ہمیں بہت سے پہلو ایسے ملتے ہیں کہ ان کو اگر ہم مشعل راہ بنالیں تو نہ صرف ہماری اپنی زندگی باوقار انداز میں گزر سکتی ہے بلکہ ملک وقوم سے محبت اور اس کیلئے کچھ کرگزرنے کا جذبہ ہمارے دلوں میں پیدا ہوسکتا ہے۔ قائد اعظم کی زندگی ایسے ان گنت واقعات سے بھری پڑی ہے جس سے ان کی اصول پسندی کے ساتھ ساتھ وقت کی پابندی اُن کی نظروں میں بڑی اہمیت رکھتی تھی۔ قائد اعظم قوم کے محبوب رہنما ہیں اُن کی شخصیت کارنامے، جدوجہد، کامرانیوں اور ناکامیوں سمیت زندگی کے ہر پہلو کے متعلق جاننے میں عوام دلچسپی رکھتی ہے۔ قائد اعظم کی شخصیت پاکستان کے علاوہ عالمی سطح پر بھی اہمیت کی حامل ہے۔ دنیا کے معروف تاریخ دان اور دانشور سیاستدان محمد علی جناح کی قائدانہ صلاحیتوں، تدبر، سیاست، فہم وفراست کے معترف ہیں جس کا ذکر مختلف ادوار کی کتابوں، رسائل اور اخبارات میں ملتا ہے۔ نئی نسل کیلئے سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ وہ اس عظم تاریخی پس منظر کا صحیح ادراک حاصل کرے جس کے نتیجے میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ برصغیر میں مسلمانوں کے آٹھ سو سالہ دور اقتدار کے بعد مسلمانوں کو برطانوی ملوکیت اور ہندوفرقہ پرستی کی متحدہ قوت کا مقابلہ کرنا پڑا۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز قیام پاکستان کی خواہش اور ہندوراج کی شدید مخالفت تھی۔ وہ ہندو تہذیب و تمدن کے عناصر ترکیبی سے بخوبی آگاہ ہونے کی وجہ سے اس کی سخت مخالفت اور قیام پاکستان کے زبردست حامی تھے۔ یہی دونوں پہلو اِن کی سیاسی جدوجہد کے نمایاں ترین اوصاف خیال کیے جاتے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی انتھک کوشش اور اس کے زیرقیادت برصغیر کے تمام مسلمانوں کی متحد قوت کے نتیجے میں پاکستان وجود میں آیا۔ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیاتھا اور مسلمانوں کیلئے بنا تھا۔ اسلامی اصول اور قوانین کے نفاذ کیلئے وجود میں آیا تھا۔ قائد اعظم نے جس وحدت ملی کا خواب دیکھا اور قوم کو مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد کرکے اسلامی تصورات کے مطابق تربیت دے کر روشن تعبیر زندہ و بیدار حقیقت پاکستان کی صورت میں پیش کردی۔ وہ کوئی نیا نعرہ یا عارضی سبق نہ تھا جسے کسی عصری ضرورت کیلئے فراموش کیا۔ قائد اعظم نے خدا کی حقیقت کو بار بار واضح کیا اور افراد ملت کو سمجھایا کہ ہمارا کلمہ ایک۔ رسول ایک۔ قرآن ایک۔ خدا ایک۔ پھر کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ ہم ایک ہو کر اپنے ملک کے استحکام اور مذہب کی اشاعت اور ملت کی خوشحالی و سربلندی کیلئے کوشاں نہ ہوں۔ اگر آج بھی ہم ملکی اتحاد و تعاون اور صحیح اسلامی جوش و خروش سے کام کریں تو اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان جلد ہی عظیم ترین ممالک میں شمار ہونے لگے گا۔ وطن کی تعمیرواستحکام کیلئے تحریک پاکستان جیسے عزم و اتحاد کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرار داد لاہور نے برصغیر کی تاریخ کا رُخ بدل دیا۔ بلاشبہ اتحاد اور تنظیم کی بدولت مسلمانوں نے دو طاقتور دشمنوں ہندو اور فرنگیوں کو شکست دے دی۔ پاکستان کا قیام کسی ایک فرد یا کسی ایک طبقہ کی کوششوں کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ پوری قوم نے قائد اعظم کے ساتھ مل کر اُن کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے تن، من، دھن کی قربانی دی جس کے نتیجے میں آزادی کا سورج دیکھنا نصیب ہوا۔ اس تاریخی جدوجہد میں ہر طبقے کے لوگوں نے اپنی ذمہ داریوں کو پوری محنت اور لگن کیساتھ پورا کیا۔ ان کا کردار اس قابل ہے کہ اسے قومی تاریخ میں شامل کیا جائے۔مسلمانانِ برصغیر کو آزادی کی جو قیمت ادا کرنی پڑی وہ ساری دنیا جانتی ہے۔ مسلمانوں کے گھروں کو آگ لگائی گئی، ان کی بہنوں اور بیٹیوں کو اغواء کیا گیا پھر بھی مسلمانوں نے ہمت نہ ہاری۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان بننے پر جتنی شہادتیں مرد،خواتین اور بچوں کی ہوئی اور جتنا خون امرتسر سے لیکر واہگہ بارڈر تک بہا اس کی مثال دنیا میں نہیں مل سکتی۔ ہندو بنیے نے لاشوں کی ٹرینیں بھر کر پاکستان کی طرف روانہ کیں۔ اُنہوں نے مسلمان بچوں کی لاشوں کو درختوں سے لٹکادیا۔ اتنا کچھ ہو جانے کے باوجود ان کے حوصلے پست نہ ہوئے اور آزادی کی خاطر گھر بار چھوڑ کر بالکل بے سروسامان ایک نئے ملک کی طرف بڑھے اور نئے حوصلے اور ولولے کے ساتھ اپنی نئی زندگی کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد اپنی آزادی کے تحفظ اور بقاء کیلئے مسلمانوں کو مزید آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ پاکستان کی داستان وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے پاکستان کو بنتے ہوئے دیکھا۔ افسوس کہ آج کا نوجوان نہ تو تاریخ پڑھتا ہے اور نہ ہی علامہ اقبال اور قائد اعظم کے بارے میں پڑھنے کا ان کے پاس وقت موجود ہے۔ اپنا تمام وقت فیس بُک، وائٹس ایپ اور ٹیوٹر جیسے بے مقصد کاموں میں گزار دیتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ تعلیمی نصاب میں قائد اعظم، علامہ اقبال اور حریت پسند مسلمانوں کی تاریخ کو لازمی حصہ بنائیں تاکہ آج کی نوجوان نسل کو پتا چل سکے کہ پاکستان کتنی قربانیوں سے بنا ہے۔ پاکستان کی حفاظت اور اس کی تعمیر و ترقی کیلئے متحد ہوکر کام کرنا ہم سب کا فرض ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح بہت محنت کرنے کی وجہ سے بیمار رہنے لگے تھے اور 11 ستمبر 1948ء کو آپ خالق حقیقی سے جاملے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کو 12 ستمبر 1948ء کو بھارت اور پاکستان میں سرکاری سوگ کے درمیان میں دفنادیاگیا۔ اُن کے جنازے میں لاکھوں لوگ شریک ہوئے۔ آج قائد اعظم محمد علی جناح کراچی میں سنگ مرمر کے ایک مقبرے مزار قائد میں آسودہ خاک ہیں۔