بابو عمران قریشی سہام
imran.tanveer@hotmail.com
قائد اعظم محمد علی جناح کا یو م وصال ہر سال 11ستمبر کو عقیدت سے اسلئے منایا جاتا ہے کہ وہ وہی مرد مومن تھے جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا۔1896ء میں بیرسٹر بن کر ہندوستان واپس آئے۔گوکھلے کی اعتدال پسندی سے متاثر ہو کرآپ نے انڈین نیشنل کانگرس میں شمولیت اختیار کر کے اپنی سیاسی زندگی کاآغاز کر دیا۔مرکزی قانون ساز کونسل کا رکن منتخب ہو کر اوقاف کے بارے میں اپنے مسودہ کو قانون کے طور پر پاس کرالیا۔اْن کے پیش نظر دو نظریئے تھے۔ایک ہندو مسلم اتحاد اور دوسرا انگریزوں کی غلامی سے چھٹکارا حاصل کرنا۔ آپ نے اپنی مدبرانہ صلاحیتوں سے ہندؤں اور مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کرنے کا عظیم کارنامہ سرانجام دیا جس نے آگے چل کر انگریز حکومت کی دیواروں کو ہلا کر رکھ دیا۔ آپ کی کاوشوں سے جو ہندؤں کے ساتھ مسلمانوں کا معاہدہ ہوا اس کا نام میثاق لکھنؤ رکھا گیا۔آپ دستوری طریقے سے آزادی کی جد و جہد کو آگے بڑھانے کے قائل تھے اسلئے انتخابات کا بائیکاٹ کرنا آپ کو پسند نہ تھا۔چونکہ وہ غیر دستوری تحریکوں کے حق میں نہ تھے اسلئے انہوں نے کانگرس سے علیحدگی اختیار کر لی۔اْس کی ایک وجہ نہرو کی وہ رپورٹ بھی تھی جس سے کانگرس کی قوم پرستی ظاہر ہوتی تھی۔ادھر مسلمان قائدین کو مقامی اور زیر زمین سیاست سے فرصت نہ تھی۔چنانچہ آپ دونوں سے دل برداشتہ ہو کرانگلستان چلے گئے۔مسلمانوں کی بگڑتی ہوئی صورت حال کو دیکھتے ہوئے علامہ اقبال اور خان لیاقت علی خان نے آپ کو ہندوستان واپس آنے کی درخواست کی۔وطن واپس آکر آپ مرکزی مجلس قانون ساز کیلئے بمبئی سے مسلمانوں کے بلا مقابلہ نمائندے منتخب ہوئے۔دوسال بعد مسلم لیگ نے انتخابات میں بنگال اور سندھ کی نشستیں جیت کر خالص مسلم لیگی وزارتیں قائم کر لیں۔صوبائی خودمختاری ملتے ہی ہندؤں نے مسلمانوں کے کلچر اور زبان کو ختم کرنے کی مہم شروع کر دی۔مسلمانوں نے ہندؤں کی منافقت سے مجبور ہو کر الگ وطن کا مطالبہ کرنے کا عزم کر لیا جس کا تصور علامہ اقبال پہلے ہی پیش کر چکے تھے۔عالمگیر جنگ چھڑ گئی تو وائسرائے ہند لارڈ ولنگٹن نے قائد اعظم سمیت سرکردہ لیڈروں سے امداد کی اپیل کی۔آپ نے کہا کہ اس شرط پر امداد مل سکتی ہے کہ جنگ کے بعد ہندوستانیوں کے حقوق انہیں دے دیئے جائیں مگر اس نے انکار کر دیا اور اْس کے تھوڑے ہی عرصہ بعد اْس کا تبادلہ انگلستان ہو گیا۔الوداعی پارٹی میں قائد اعظم نے فرمایا،بمبئی کے شہریوں نے انگریز کے خلاف ایک شاندار کامیابی حاصل کر لی ہے۔اس خوشی میں آپ کے نام پر بمبئی میں جناح ہال تعمیر کیا گیا تھا۔
جب مارچ1947ء میں لارڈ مونٹ بیٹن کو ہندوستان کو آزادی دینے کا فریضہ سونپا گیا تو قائد اعظم پاکستان کے مطالبے پر ڈٹے رہے۔ادھر کانگرس نے بنگال اور پنجاب کو تقسیم کر نے کی ضد شروع کر دی۔وائسرائے ہند نے ملک تقسیم کرنے کا اعلان کر دیا۔قائد اعظم محمد علی جناح کی انتھک کاوشوں سے مسلمانوں کیلئے ایک علٰحدہ مملکت پاکستان معرض وجود میں آگئی۔آپ کو پاکستان کا پہلا گورنر جنرل مقرر کیا گیا۔اْنہوں نے اپنے خطاب میں فرمایا " مسلمانان ہند نے دنیا کو دکھا دیا کہ وہ ایک متحدہ قوم ہیں اْن کا نصب العین صحیح۔نیک اور انصاف پر مبنی ہے آیئے اس نعمت کیلئے ہم عاجزی و انکساری سے اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لائیں"۔آپ ایک مسلمہ سیاسی بصیرت رکھنے والے انسان تھے اورصرف پاکستان کے ہی نہیں پورے عالم اسلام کے رہنما تھے۔ آپ نے فرمایا وہ کونسا رشتہ ہے جس میں منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں۔وہ کونسی چٹان ہے جس پر ملت اسلامیہ کی عمارت استوار ہے۔وہ کونسا لنگر ہے جس سے اْمت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے۔وہ رشتہ وہ چٹان وہ لنگر اللہ کی مقدس کتاب قرآن حکیم ہے۔
آپ کا یہ سنہری قول تھا کہ" ہم خودبھی امن سے رہنا چاہتے ہیں اور دوسروں کو بھی امن سے رہنے دینا چاہتے ہیں۔ہمیں ملک کی تعمیر و ترقی میں حصہ لینا ہے اور عام آدمی کی زندگی کا معیار بلند کرنا ہے"۔ وہ لوگوں سے کہا کرتے تھے" فیصلہ کرنے سے پہلے لاکھ بار سوچ لو لیکن جب فیصلہ کر لو تو اس سے کسی صورت بھی پیچھے نہ ہٹو"۔ آپ نے اپنی قابلیت۔ذہانت مستقل مزاجی اور دیانتداری سے نہ صرف بر صغیر کے ہر شعبے میں بلکہ وکلاء برادری میں بھی ایک خاص مقام پیدا کر لیا تھا اور ان کا شمار ملک کے چوٹی کے وکلاء میں ہوتا تھا۔آپ نے فرمایا "اگر کوئی چیز اچھی ہے تو یہ عین اسلام ہے اور اگر کوئی چیز اچھی نہیں ہے تو یہ اسلام نہیں ہے کیونکہ اسلام کا مطلب عین انصاف ہے "آپ نے دنیا میں ایک اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی اور اس کے لئے جو کچھ کیایا جو کچھ کرنا چاہتے تھے وہ روز روشن کی طرح سب پر عیاں ہے۔قائد اعظم کی شخصیت اور کارناموں سے متاثر ہو کر دنیا کی مقتدر شخصیات نے ان کو حرج تحسین پیش کیا۔"۔لارڈ ارون وائسرائے نے خطرہ محسوس کرتے ہوئے یوں کہا تھا۔"انگریزوںکو صرف محمد علی جناح سے خطرہ ہے کیونکہ وہ دل و جان سے آزادی چاہتے ہیں اور آخر کار وہ ہندوستان سے انگریزوں کو نکلنے پر مجبور کر دیں گے "خاکسار تحریک کے بانی علامہ عنایت اللہ مشرقی نے قائد اعظم کے متعلق کہا کہ" وہ عزم کے پختہ۔بے باک سپاہی اور مخالفین سے ٹکرانے کاحوصلہ رکھتے تھے " مسزز وجے لکشمی پنڈت کی یہ خواہش تھی کہ" کانگرس کے پاس اگر قائداعظم ہوتے تو ہندوستان کبھی تقسیم نہ ہوتا "سی۔آر ریڈی کے بیان کے مطابق" قائد اعظم صرف مسلمانوں کیلئے ہی نہیں پورے ہندوستان کیلئے باعث فخر شخصیت تھے"گھوکھلے نے قائد اعظم کی صلاحیتوں کو یوں سراہا" جناح میں بے شمار صلاحیتیں ہیں اسلئے وہ ایک دن ہندوستان کے سفیر بنیں گے "سیرت و کردار کی بلندی کو سراہتے ہوئے پنڈت جواہر لال نہرو نے یوں کہا" قائد اعظم نے سیرت و کردار کی بلندی کے باعث زندگی کے مختلف معرکے سر کئے "لارڈ ویول نے یوں تعریفی جملے کہے "محمد علی جناح کے ارادوں میں پختگی اور رویّے میں کوئی لچک نہ تھی۔مسلمانوں کے سچے اور عظیم رہنما تھے"مولانا شبیر احمد عثمانی نے اپنا نذرانہ عقیدت یوں پیش کیاتھا" اورنگزیب کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں میں قائد اعظم قد آور شخصیت رکھتے تھے اور اْن کے مقابل کوئی شخص پیدا نہیں ہوا" قائد اعظم محمد علی جناح 11ستمبر 1948ء کو اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔بے شک زندہ قومیں وہی ہوتی ہیں جو اپنے محسنوں اور آزادی کے قائدین کی جد و جہد کو کبھی فراموش نہیں کرتیں۔
جناح وہ مرد مومن تھے جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا
Sep 11, 2024