اک قیامت تھی جو دلوں پر گزر گئی

شریف فاروق
’’جس روز قائداعظم محمد علی جناح گورنر جنرل پاکستان کا جنازہ اٹھا، اس روز قیامت برپا تھی۔ میں نے اپنی زندگی میں اس قدر بے پناہ ہزاروں لاکھوں ماتم گساروں کا بے قابو اجتماع نہیں دیکھا تھا، لوگ دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے، چاروں طرف سے لوگ سمندر کی طغیانی موجوں کی طرح امڈ آئے تھے۔ ایسے معلوم ہوتا تھا، انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا بحر ذخار ہے اور انسانوں کے کندھوں کے اوپر سے بھی انسان امڈے چلے آ رہے تھے۔ ہر کوئی قائداعظم کا آخری دیدار کرنا چاہتا تھا۔ محسوس ہوتا تھا کہ گورنر جنرل ہائوس کے درودیوار کو یہ ہجوم بہا کر لے جائے گا۔ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح شدت غم سے ایک طرف کمرے میں بیٹھی ہوئی تھیں ان کے آنسو خشک ہو چکے تھے، نظم و نسق کو بحال رکھنا ممکن دکھائی نہیں دیتا تھا۔
 لیڈی سر عبداللہ ہارون نے مجھ سے کہا کہ کہیں سے کوئی لائوڈ سپیکر لائو تاکہ میں لوگوں سے اپیل کروں کہ اگر وہ قائداعظم کے سچے پیروکار ہیں اور ان کے ارشاذدات اور نظم و نسق پر عمل کرنا چاہتے ہیں تو وہ یہاں سے ہٹ جائیں۔ ہم قائداعظم کا جنازہ رکھ رہے ہیں، ان کے آخری دیدار کرنے کے لئے تمام لوگ قطار اندر قطار آتے جائیں، آخری دیدار کرتے جائیں اور جب تک تمام سوگواران کا آخری دیدار نہیں کر لیں گے، ہم جنازہ نہیں اٹھائیں گے۔ ہر کسی کو اجازت ہوگی کہ وہ قائداعظم کی آخری بار زیارت کر لے۔ خدا جانے بیگم ہارون کی آواز میں یا قائداعظم کے نام میں اتنا جادو تھا کہ تمام مجمع چھٹ گیا۔ تمام لوگ گورنر جنرل ہائوس سے باہر چلے گئے اور انتہائی نظم و نسق کا مظاہرہ کرتے ہوئے لوگوں نے نہایت ضبط و تحمل سے آنا شروع کر دیا۔‘‘
یہ ہیں وہ انکشافات جو تحریک پاکستان کی سرگرم کارکن اور متعدد معاشرتی اور سماجی شعبوں کی سربراہ اور سرپرست محترمہ زری سرفراز  نے کئے۔
 محترمہ زری سرفراز قیام پاکستان کے بعد خان عبدالقیوم خان کی پہلی منتخب اسمبلی کی رکن تھیں۔انہوں نے کہا میں اپنی والدہ محترمہ کے ہمراہ لیڈی ہدایت اللہ کے گھر میں تھی کہ پتہ چلا قائداعظم فوت ہو چکے ہیں۔ ان کی علالت کی خبریں تو عام تھیں، ہر وقت ان کی وفات کا دھڑکا لگا رہتا تھا جب وہ مادر ملت اپنے اے ڈی سی اور عملے کے ہمراہ سٹیٹ بنک آف پاکستان کے افتتاح کے لئے آئے تو ہم ماری پور کے ہوائی اڈے پر تھے۔ پہلی بار قائداعظم کو چھڑی ہاتھ میں تھامے ہوئے دیکھا، وہ بے حد نحیف و نزار دکھائی دے رہے تھے اور بہت آہستہ آہستہ چل رہے تھے، میں نے ہاتھ ملایا تو ان کا ہاتھ بے حد ٹھنڈا اور یخ بستہ لگا جیسے ہاتھ میں جان نہ ہو، میں نے محسوس کیا جیسے کسی بے جان شخصیت سے ہاتھ ملا رہی ہوں۔
11 ستمبر کو قائداعظم کی وفات کی اڑتی اڑتی خبر سنی، یہ رات گیارہ بجے کا وقت تھا، ہم بیگ سر عبداللہ ہارون کے ہاں سے افراتفری کے عالم میں روانہ ہوئے۔ گورنر جنرل ہائوس کے تمام دروازے بند تھے مین گیٹ بند تھا کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں تھی، ہم دوسرے گیٹ پر پہنچے، اپنی آمد کی اطلاع دی، قائداعظم کے اے ڈی سی نے دروازہ کھولا۔ تمام گھرپر مردنی چھائی ہوئی تھی، مادر ملت علیحدہ بیٹھی تھیں، بیگم ہدایت اللہ جو مادر ملت کی عزیز دوست تھیں اور ان کے ساتھ ایک نرس بھی بیٹھی تھیں، ابھی ہم باتیں کر رہے تھے کہ بیگم چودھری محمد علی بھی آگئیں۔
قائداعظم کی لاش پلنگ پر پڑی ہوئی تھیں لیکن ایسے معلوم ہوتا تھا، وہاں کچھ نہیں ہے، میں نے نرس سے اشارتاً پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہ چادر کے نیچے قائداعظم ہی ہیں۔ قائداعظم اس قدر کمزور تھے کہ وہ پلنگ کے ساتھ لگ گئے تھے جیسے ان کا وجود ہی موجود نہ ہو۔
بیگم زری سرفراز کہنے لگیں۔
’’قائداعظم سے ہمیں جو عقیدت وارادت تھی، اس کے پیش نظر میں نے سوچا کہ کیوں نہ کوئی ان کی یاد گار… حاصل کی جائے۔ وہ کہنے لگیں’’میں نے قریب ہی چھوٹی سی میز کا دراز کھولا، اس میں تین امپول پڑے ہوئے تھے۔ اس کے ساتھ ہی دوسرے دراز میں قائداعظم کا نام لئے ہوئے مہر کا چھوٹا سا بلاک پڑا ہوا تھا، میں نے یہ تینوں اٹھا لئے۔‘‘
انہوں نے استعجاب کی تمام قوتوں کو اکٹھے کرتے ہوئے کہا ’’اگر قائداعظم ماڑی پور کے ہوائی اڈے پر یا راستے میں آتے ہوئے فوت ہو چکے ہوتے تو یقینا کوروفین امپوئل کی کیا ضرورت تھی؟ یقینا انہیں یہاں زندہ حالت میں لایا گیا اور یہیں انہوں نے اپنی جان… جان آفرین کے حوالے کی۔ اناللہ و اناالیہ راجعون۔‘‘
’’یہ خالی امپول اور قائداعظم کے نام کا چھوٹا سا بلاک سنبھال لئے؟‘‘
میں نے محترمہ زری سرفراز سے حیرت زدگی کے عالم میں پوچھا کیا۔
’’وہ اب بھی آپ کے پاس ہیں؟‘‘
انہوں نے پر اعتماد لہجے میں کہا۔
’’ہاں! وہ میرے پاس محفوظ ہیں۔‘‘
’’میں پہلے بھی ذکر کر چکی ہوں کہ یہ صبح کا وقت تھا اور ایسے معلوم ہوتا تھا، صبح قیامت بپا ہو رہی ہے۔ جب قائداعظم کو غسل دینے کے لئے ان کی لاش کو لے جانے لگے تو محترمہ فاطمہ جناح، لیڈی ہدایت اللہ، بیگم عبداللہ ہارون، قائداعظم کے عزیز و اقارب اور رشتہ دار سب جمع تھے۔ ایک طرف قرآن کریم کے سیپارے بھی رکھے ہوئے تھے، خواتین سیپارے پڑھ رہی تھیں، میں نے بھی ایک سیپارہ اٹھا لیا۔ میں نصف میں پہنچی تھی کہ بیگم چودھری محمد علی بھی تشریف لے آئیں میں نے ان سے کہا کہ وہ اسے مکمل کر لیں، محترمہ فاطمہ جناح کی نظر مجھ پر پڑی اور کہا’’مجھے فوراً کہیں سے ایک پھول لا دو اور سب سے کہو کہ دس منٹ کے لئے کمرہ خالی کر دیں۔ دس منٹ تک کسی کواندر نہ آنے دینا‘‘۔
میں نے محترمہ کی خواہش کا سب سے اظہار کیا تو کمرہ خالی ہوگیا۔
 محترمہ زری سرفراز کہنے لگیں۔
’’مجھے علم تھا کہ قائداعظم کو کارونیشن کا پھلو بہت پسند تھا، یہ ان کا پسندیدہ پھول تھا وہی ان کے سوٹ کے کالر میں لگایا جاتا تھا‘‘۔
’’میں نے فوراً کارونیشن کا ایک پھول حاصل کیا اور وہ محترمہ کی خدمت میں پیش کر دیا۔‘‘
مادر ملت نے پھول لیتے ہی کہا:۔
’’اب کسی کو اندر نہ آنے دینا‘‘ میں نے دروازے بند کرکے پردے کھینچ دیئے اور خود ایک طرف کونے میں کھڑی ہوگئی، جہاں سے میں محترمہ کو دکھائی نہیں دیتی تھی لیکن میں انہیں دیکھ رہی تھی۔ محترمہ مادر ملت اس پھول کو ان کے چہرے پر آہستہ آہستہ ان کے دونوں گالوں، چہرے ماتھے اور سر پر سے گزار رہی تھیں اور ساتھ ہی کچھ نیم بلند آواز میں پڑھ رہی تھیں، وہ کیا پڑھ رہی تھیں؟ میں نہ تو پوری طرح سن سکتی تھی اور نہ وہی سمجھ میں آ سکتا تھا۔
 یہ بہن کا بھائی کی مغفرت کے لئے شاید کوئی دعائیہ آیات ہوں گی۔ یہ منظر بڑا رقت انگیز اور تعجب انگیز تھا۔
’’میڈم! دس منٹ پورے ہوگئے‘‘
اسی دوران میں محترمہ شیریں بائی اور قائداعظم کی صاحبزادی دینا بھی آگئیں۔ ظاہر ہے کہ باپ کی اکلوتی بیٹی کس قدر غم سے نڈھال ہوگی۔‘‘
میں نے پوچھ ہی لیا۔
’’محترمہ! یہ بتایئے آپ نے چیخ و پکار، آہ و بکا اور نالہ و شیون کی کوئی آواز نہ سنی؟ کہنے لگیں:۔ ’’نہیں! ہماری طرح یہ لوگ گریہ وزاری نہیں کرتے تھے ہاں، انسان کو اپنی کسی عزیز ترین متاع کے چھن جانے کا جو دکھ پہنچنا ممکن ہو، وہ کیفیت ان پر بھی گزر رہی تھی، ہر کوئی غم زدہ اور ہر کسی کی آنکھیں پرنم تھیں۔ بعضوں کے ہاتھوں میں سفید رومال تھے، محترمہ کے ہاتھ میں بھی سفید رومال تھا اور وہ اس سے اپنی آنکھیں پونچھ رہی تھیں، تاہم دس منٹ گزرتے ہی دروازے کھول دیئے گئے۔
اب لاکھوں افراد کا ہجوم تھا جو سمندر کی طغیانی کی طرح بہا چلا آ رہا تھا۔ہر کوئی قائد کا چہرہ دیکھنا چاہتا تھا۔ اسی اثناء میں لیڈی سرعبداللہ ہارون نے کہا کہ کہیں سے ’’مائیک لا دو‘‘… مائیک حاصل کر لیا گیا اور… غالباً نواب صدیق علی خان سے کہا گیا کہ وہ عوام سے اپیل کریں کہ راستے خالی کر دیں۔ گونر جنرل ہائوس سے نکل جائیں۔ قائداعظم کی لاش اس وقت تک یہاں سے روانہ نہیں کی جائے گی جب تک سب ماتم گساران کا آخری دیدار نہیں کر لیں گے۔چنانچہ نواب صدیق علی خان نے کہا:۔
حضرات! یہ بے حد غم و اندوہ کا وقت ہے، لاکھوں افراد کا ہجوم ہے، اس موقع پر ہمیں قائداعظم کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے نظم و نسق کا مظاہرہ کرنا چاہیے، اب ان کی مغفرت کی دعا کرتے جائیں اور میدان خالی کر دیں،  جب تک آپ میں سے ایک ایک سوگوار قائد کا آخری دیدار نہیں کر لے گا،انہیں یہاں سے روانہ نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی لحد میں اتارا جائے گا۔‘‘
اس اپیل کا خاطر خواہ اثر ہوا اور نہ صرف ہجوم دو منٹ کے اندر اندر چھٹ گیا بلکہ کامل خاموشی چھا گئی۔ سوگوار قطار اندر قطار آ رہے تھے، کلمہ طیبہ اور اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں اور وہ گزر رہے تھے۔ خدا جانے کتنے گھنٹے اس عمل کی تکمیل پر لگے اور پھر وہ منظر بھی بڑا دل دوز تھا جب قائد کا جنازہ روانہ ہوا۔‘‘
محترمہ زری سرفراز کہنے لگیں
’’اس دور میں کراچی بہت چھوٹا سا شہر تھا، ہمیں مختلف راستوں کا علم تھا اور یہ بھی جانتے تھے کہ جنازہ کہاں دفنایا جائے گا۔ اس لئے ہم محترمہ مادر ملت فاطمہ ناح، ان کی بہن شریں بائی اور دوسری خواتین کی معیت میں روانہ ہوگئیں اور جہاں اب قائد کا مزار ہے، وہاں پہنچ گئیں۔ قائداعظم کی لاش کو بڑے احترام سے دفنایا گیا، ہر کسی نے قبر کو مٹی دی۔ میں نے  قبر پر رکھے پھولوں میں سے چند پھول حاصل کئے اور ساتھ ہی ان کی قبر سے مٹی بھی لے لی۔’ہم قائد کی قبر پر آخری تین افراد تھے، تمام دنیا قائد کو دفنا کر جا چکی تھی‘‘۔میں مردان میں تھی کہ ایک روز مادر ملت کا خط آیا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم قائد کی قبر سے کچھ پھول اور مٹی لائی تھیں۔"Can you share it with me?"’’کیا آپ اس میں مجھے بھی شریک کر سکتی ہیں؟ میں نے آدھے پھول اور آدھی مٹی بھجوا دی… جو محترمہ نے اپنے بھائی کی یاد میں محفوظ کرلی۔

ای پیپر دی نیشن