علی محمد خان سے چند سوال!!!!!

پاکستان تحریک انصاف کے شعلہ بیاں مقرر علی محمد خان نے قومی اسمبلی میں تقریر کی ہے۔ انہوں نے جس جوش و جذبے کے ساتھ تقریر کرتے ہوئے اپنی جماعت کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو مظلوم بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس جوش و جذبے میں ہر جگہ حقائق کو مسخ کر کے پیش کیا گیا ہے۔ انہوں نے صرف ردعمل کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے حالانکہ جو عمل اتوار کو اسلام آباد کے جلسے میں ہوا اسے مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ علی محمد کو اپنے ساتھیوں کی گرفتاری کا دکھ تو ضرور ہے لیکن جو ان کے ساتھی اس ملک کے ساتھ کر رہے ہیں اس کا جواب کون دے گا۔ وہ نو مئی کے واقعات کو غلط کہتے ہیں لیکن نو مئی کے واقعات کی وجہ بننے والوں کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ کیسا طرز سیاست اور سوچ ہے۔ دکھوں ماری قوم کی اس انداز میں رہنمائی کی جائے گی تو تباہی کون روکے گا۔ علی محمد خان کو دس ستمبر کو جمہوریت کے لیے سیاہ دن قرار دے رہے ہیں لیکن آٹھ ستمبر کو اسلام آباد میں ہونے والے جلسے میں پی ٹی آئی قیادت نے جو تقاریر کی ہیں کیا وہ جمہوریت کا روشن باب ہیں، علی محمد خان کو اپنے ساتھیوں کی گرفتاری کا دکھ تو کھائے جا رہا ہے لیکن جو ان کے ساتھی صبح، دوپہر ،شام اس ملک کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں اس کا حساب کون لے گا۔ کیا کوئی نظام حکومت ریاست سے ملک سے زیادہ اہم ہے۔ کیا یہ جمہوریت ہے کہ ملک کے ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ سرکاری وسائل استعمال کرتے ہوئے وفاقی دارالحکومت میں جلسہ کرے اور سب کو برا بھلا کہے، کیا یہ جمہوری رویہ ہے، کیا ملک میں کوئی آئین و قانون نہیں ہے، کیا ملک میں قانون نافذ کرنے والے، انصاف فراہم کرنے والے ادارے نہیں ہیں، کیوں بڑھ بڑھ کر ملک میں نفرت پھیلانے والے کام کرتے ہیں، قانون توڑتے ہیں، شہریوں کو قانون توڑنے کی ترغیب دیتے ہیں اور بعد میں چیخ و پکار کرتے ہیں۔ کوئی نظام حکومت ملک میں انتشار پھیلانے والوں کی حمایت و حفاظت کا سبق نہیں دیتا، کسی نظام حکومت میں صوبے کے وزیر اعلیٰ کو سیاسی جلسوں کے لیے سرکاری وسائل اعلانیہ و بے دریغ استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ میں تو ویسے ہی موجودہ جمہوری نظام کا حمایتی نہیں ہوں کیونکہ اس نظام کو چلانے کے لیے جو قربانیاں قوم نے دی ہیں علی محمد خان اور ان کے ساتھ پارلیمنٹ میں بیٹھے افراد کو اس کا اندازہ بھی نہیں ہے۔ سو علی محمد خان کو چاہیے کہ پورا سچ بولیں۔ قوم کے جذبات سے مت کھیلیں، اپنے لوگوں کا محاسبہ بھی کریں۔ وہ قوم کو بتائیں اتوار کو اسلام آباد میں ہونے والی تقاریر کسی سیاسی جماعت کی ہیں۔ کیا سیاسی قیادت کا رویہ ایسا ہوتا ہے۔ اپنی ناکامیوں اور غلطیوں کو تسلیم کرنے کے بجائے "جمہوریت " کے پیچھے چھپنے کا کھیل مت کھیلیں۔
پاکستان تحریک انصاف کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں ہے یہ خود ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے لیے کافی ہیں۔ وگرنہ دور حکومت میں جتنی مدد، تعاون اور حمایت انہیں حاصل رہی اگر یہ سمجھ داری سے کام لیتے تو یقینا ملکی مسائل بھی ہوتے اور حکومت بھی ایسے ختم نہ ہوتی جیسے ہوئی تھی، اگر یہ عقل و شعور سے کام لیتے تو عام آدمی کا بھلا ہوتا اور ملک کے بنیادی مسائل حل ہوتے، تعمیر و ترقی کا سفر شروع ہوتا لیکن انہوں نے کام کرنے کے بجائے سارا وقت صرف بیان بازی سیاسی مخالفین کے ساتھ حساب برابر کرنے اور ان کا مذاق بنانے میں ضائع کیا، دوست ممالک کے ساتھ بھی تعلقات خراب کیے اور اندرونی طور پر بھی نفرت پھیلائی، اپنی ہر ناکامی کا ملبہ دوسروں پر ڈالتے ہوئے خود مظلوم بننے کہ کوشش کرتے رہے اور یہ کوشش آج بھی جاری ہے۔ پی ٹی آئی عوامی حمایت کا درست استعمال کرنے میں کسی بھی وقت کامیاب نہیں ہو سکی، وہ طاقت جسے ملک کی بہتری اور تعمیر کے لیے استعمال ہونا تھا اسے صرف اور صرف جلائو گھیراؤ اور طوفان بدتمیزی کے لیے استعمال کر کے ملک میں نفرت کو ہوا دی، معصوم وسادہ لوح لوگوں میں احساس محرومی پیدا کر کے انہیں ملک کیخلاف بھڑکایا اور بدقسمتی سے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔ 
اتوار کو پاکستان تحریک انصاف نے اسلام آباد میں جلسہ کیا ہے اس جلسے میں ناصرف قوانین کی خلاف ورزی ہوئی بلکہ معاہدے توڑے گئے، سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ اس جلسے کا سب سے افسوس ناک اور خطرناک پہلو پاکستان تحریک انصاف کے مقررین کی زبان تھی۔ جو زبان استعمال جلسے میں پاکستان کے دفاعی اداروں، سیاسی قیادت، میڈیا، دیگر اداروں اور شخصیات بارے استعمال کی گئی ہے وہ قابل مذمت ہے ۔ اس جلسے میں تقریر کرنے والوں کو سننے کے بعد یہ کہنا مشکل ہے کہ پی ٹی آئی نے اسلام آباد میں کوئی سیاسی جلسہ کیا ہے ۔ اسے سیاسی سرگرمی کسی طور قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ سیاسی جماعتوں اور جتھوں میں فرق ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتیں ملکی مسائل حل کرنے کے لیے بات چیت سے کا راستہ اختیار کرتی ہیں لیکن تحریک انصاف دھمکیوں پر اتر آئی ہے۔ اسلام آباد میں ہونے والے جلسے کا مقصد بانی پی ٹی آئی کو جیل سے نکالنا ہے تو پھر عدالتیں بند کر دی جائیں۔ سینکڑوں یا ہزاروں لوگ جمع کر کے اگر کوئی گروہ عدالت یا جیل پر چڑھائی کرے اور کسی بھی قیدی کو چھڑانے کے لیے دباؤ ڈالے تو کیا قیدی کو رہا کر دیا جائے۔ ایسا نہیں ہو سکتا جن مقدمات کی بنیاد پر میاں نواز شریف،  میاں شہباز شریف ان کے خاندان یا آصف علی زرداری اور ان کے خاندان کو نشانہ بنایا جاتا ہے ویسے ہی اختیارات کے ناجائز استعمال یا ناجائز ذرائع آمدن کے مقدمات بانی پی ٹی آئی پر ہیں اور وہ ان مقدمات کے نتیجے میں قید ہیں پھر یہ دھمکیاں کوئی وزن نہیں رکھتیں۔ اس لیے جو زبان اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے استعمال کی ہے اس کی کسی بھی سطح پر کسی بھی دلیل کے ساتھ کوئی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ کیا بدقسمتی ہے کہ علی امین گنڈا پور ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ ہیں اس وقت وہ اپنی جماعت میں ایک اہم حیثیت رکھتے ہیں لیکن جس انداز میں وہ گفتگو کرتے ہیں اس سے واضح طور پر یہ احساس ہوتا ہے کہ علی امین گنڈا پور کسی خاص مقصد کے تحت لوگوں کے جذبات بھڑکا رہے ہیں وہ لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینے کی ترغیب دے رہے ہیں اور خدانخواستہ پھر کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے تو سب کہیں گے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے، ہم نے تو لوگوں سے نہیں کہا کہ وہ ہتھیار اٹھائیں، میڈیا پر آپ چڑھ دوڑیں، اداروں کو للکاریں، ریاستی اداروں کو دھمکیاں دیں سیاسی جماعتوں کا نہ تو یہ انداز ہے نہ ہی جمہوری طریقہ کار ہے۔ جمہوریت تو پرامن رہنے کا پیغام دیتی ہے۔ 
اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف کے جلسے میں قائدین کی تقاریر میں بے چینی کا احساس بھی ہوتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ جیسے مختلف مقدمات میں مطلوب افراد کو اپنی آزادی بھی خطرے میں نظر آ رہی ہے جیسے جیسے وقت گذر رہا ہے، احتسابی عمل تیز ہو رہا ہے ویسے ہی پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کی بے چینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ قانون ہاتھ میں لینے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو نشانہ بنانے کے بعد اگر آپ یہ سمجھیں کہ آزاد رہیں گے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہو گا یہ ذرا مشکل ہے۔ ایسا عمل کوئی بھی شخص اور کوئی بھی سیاسی جماعت کرے اس کی ناصرف حوصلہ شکنی ہونی چاہیے بلکہ اس کے خلاف ہر ممکن قانونی کارروائی ہونی چاہیے، قانون توڑنے والوں اور ریاست کی رٹ چیلنج کرنے والوں کو نشان عبرت بنانا ہو گا۔ 
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے صحافیوں کو دھمکاتے ہوئے کہا کہ تم لوگ جو ہمارے خلاف کیمپین کر رہے ہو تم سمجھتے ہو کہ ہمیں بلیک میل کر لو گے۔ انہوں نے خاتون صحافیوں کیلئے بھی نازیبا زبان استعمال کی اور صحافیوں کو دھمکاتے ہوئے کہا میں حریف صحافیوں کو ننگا کروں گا۔ عمران خان کی رہائی کیلئے حکومت کو ڈیڈ لائن دیتے ہوئے کہا کہ ایک سے دو ہفتے میں قانونی طور پر عمران خان رہا نہ ہوا تو ہم پھر انہیں خود رہا کریں گے۔ 
کیا ایسے نظام چل سکتا ہے، سابق صدر عارف علوی نے پرانی ویڈیو شیئر کی پھر انہیں ڈیلیٹ کرنا پڑی یہ لوگ کیا کر رہے ہیں۔ پاکستان میں امن و امان کے مسائل پیں خیبر پختونخوا حکومت صوبے میں امن قائم کرنے کے سلسلے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتی یے، پارٹی اختلافات کا شکار ہے، تنظیم نام کی کوئی چیز نہیں ان حالات میں پی ٹی آئی ایک مرتبہ پھر دھمکیوں کی سیاست کا راستہ اختیار کر رہی یے یہ جارحانہ حکمت عملی آئینی و قانونی معاملات میں مختلف مقدمات میں قید افراد کے لیے آسانی پیدا کرے گی یا مشکلات میں اضافہ ہو گا اس کا اندازہ سیاسی معاملات اور سیاسی طریقہ کار سے ناواقف پی ٹی آئی قیادت کو بھی نہیں ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی بدقسمتی ہے کہ اس وقت غیر سنجیدہ افراد کے ہاتھوں میں ہے۔ ایسے لوگ جو صرف جذباتی انداز میں سوچے سمجھے بغیر بولتے چلے جاتے ہیں، یہ ہاتھوں سے باندھ کر دانتوں سے کھولنے والی بات ہے۔ اس صورت حال میں سب سے زیادہ تکلیف دہ بات نوجوان نسل میں پھیلنے والی گمراہی، بے چینی اور عدم برداشت ہے۔ اس طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ 
آخر میں مرزا غالب کا کلام
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
نہ شعلہ میں یہ کرشمہ نہ برق میں یہ ادا
کوئی بتاؤ کہ وہ شوخ تند خو کیا ہے
یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سے
وگرنہ خوف بد آموزی عدو کیا ہے
چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہمارے جیب کو اب حاجت رفو کیا ہے
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہو گا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
وہ چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز
سوائے بادہ گلفام مشک بو کیا ہے
پیوں شراب اگر خم بھی دیکھ لوں دو چار
یہ شیشہ و قدح و کوزہ و سبو کیا ہے
رہی نہ طاقت گفتار اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے
ہوا ہے شہہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...