پاکستان کے نوجوان 

پاکستان کا شمار اْن خوش قسمت ممالک میں ہوتا ہے جس کی آدھی سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے ۔ اس سعادت و خوش بختی کا تذکرہ اور اظہار ِتشکر سے لبریز اکثر جملے منظرِ عام پر آتے رہتے ہیں ۔ اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (UNDP) اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ  اکنامکس (PIDE)کی رپورٹس کے  اعدادوشمار اس بات کی تائید بھی کرتے ہیں۔ مگر کیا بات اتنی ہی سادہ اور منظر نامہ بھی اتنا ہی پرکشش اور دلکش  ہے ؟ کسی ملک یا علاقے کی آبادی میں ہر عمر کے افراد موجود ہوتے ہیں ۔ مگر اس بات کا دارومدار بہت سے عوامل پرہے کہ کسی بھی مقام کا اکثریتی حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے یا بزرگ آبادی زیادہ ہے ۔ دنیا بھر میں پچاس فیصد سے زیادہ نوجوان آبادی کے حامل ممالک پر نظر ڈالیں تو فہرست میں افغانستان ،  نائجیریا ،سوڈان ، ، اور یمن جیسے ممالک کے نام دیکھ کر یہ سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے کہ نوجوان آبادی کے زیادہ ہونے میں کسی کا کوئی کمال نہیں ہے اور نا ہی یہ کوئی خاص عطا ہے بلکہ پس پردہ کئی  معاشرتی اسباب اور  ناکافی حکومتی اقدامات ہیں ۔ پاکستان کے دیہا توں اور چھوٹے شہروں میں کم عمری کی شادی کا رواج ہے اور دیگر ترقی پزیر ممالک کی طرح خاندانی منصوبہ بندی کے نہ ہونے سے شرح پیدائش بے حد زیادہ ہے اسی لیے آبادی میں بے تحاشا اضافہ مستقبل میں نوجوان آبادی کی شکل میں سامنے آتا ہے ۔اسی طرح صحت کی ناقص سہولیات ، غذائی قلت اور ماحولیاتی مسائل کی وجہ سے پاکستان کی اوسط عمر بہتری کی بعد بھی 67 برس ہے جو نہ صرف عالمی اوسط عمر سے تقریبا دس سال کم ہے بلکہ اس خطے کے دیگر ممالک  سے بھی کافی نیچے ہے ۔ان تمام مسائل کے باوجود یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ قابِل  اور ہنر مند نوجوان کسی بھی ملک کا اَثاثہ ہیں اور ملک کا مستقبل ان ہی کے ہاتھ میں ہے ۔ اسلام آباد میں نجی ،سرکاری اور نیم سرکاری جامعات کی تعداد تیس سے اوپر ہے اور ملک کے ہر حصے سے طلبا حصول علم کے لیے یہاں آتے ہیں ۔ستمبر کا مہینہ اسلام آباد میں  تعطیلات کے بعد اکثر جامعات کے دوبارہ کھلنے کا مہینہ ہے  ۔ چند دن پہلے  اسلام آباد کی کچھ جامعات کے طلبہ  سے ملاقات اور گفتگو کا موقع ملا ۔  سوشل میڈیا اور دیگر کئی ذرائع سے ملک میں  عام نوجوانوں کے معاشی، نفسیاتی اور دیگر مسائل سے توکسی حد آگاہی  حاصل ہوتی  رہتی ہے  مگر جس رفتار سے معاملات پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہو رہے ہیں اس سے چشم پوشی یا محض وقت گزاری کے لیے چند اقدامات کر دینا ان تمام  مسائل کا ازالہ  نہیں کر سکتا  جس سے  آج کا نوجوان  خاص طور پر  طالب علم نبرد ا?زما ہے ۔ دورانِ تعلیم جامعات میں فیس کے علاوہ دیگر ضروریات جیسے  رہائش اور کھانے پینے کے معاملات بے حد مشکل ہو چکے ہیں اور والدین کی آمدنی میں بہتری نہ ہونے کے برابر ہے اور اخراجات مسلسل بڑھ رہے ہیں ۔اب ان معاملات سے غفلت اور پہلو تہی حالات کو مزید خرابی کی طرف لے کر جائے گی ۔ ہر حکومت نوجوانوں کے لیے مختلف ترقیاتی اور فلاحی منصوبے پیش کرتی ہے جو بے تدبیری کی وجہ سے دیرپا اثرات مرتب کرنے میں ناکام رہتے ہیں ۔ آج کے نوجوان کا سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری ہے ۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد روزگار کا کوئی بھروسہ نہیں ہے ۔اکثریت والدین اپنی تمام تر  جمع پونجی بچوں کی تعلیم پر لگا دیتے ہیں اور امید بھی رکھتے ہیں کہ ڈگری  حاصل کرنے کے بعد ایک بہتر زندگی منتظر ہو گی مگر حالات اس کے برعکس ہوتے ہیں ۔ تعلیمی نظام کو بہتر بنانا بے حد ضروری ہے مگر موجودہ حالات میں  کسی ایک  مرکزی پلیٹ فارم کے تحت ملک بھر کی جامعات کے طلبا کے لیے نجی اور سرکاری شعبے میں شراکت داری کے ذریعے دوران تعلیم نوکری یا تنخواہ کے ساتھ  انٹرن شپ پر توجہ دی جا سکتی ہے ۔اسی طرح کاروباری منصوبہ بندی، مارکیٹنگ، اور مینجمنٹ جیسے شعبوں کی جانب رہنمائی کی جاسکتی ہے تاکہ سارا فوکس نوکری کے حصول تک محدود نہ رہے ۔ اس مقصد کے لیے موجودہ تعلیمی انفراسٹرکچر کو ہی استعمال میں لاتے ہوئے شام کے اوقات میں نوجوانوں کی  فنی تربیت کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔ معاشی  طور پر بے فکر ذہن ہی اپنی صلاحیت کا بہترین استعمال کر سکتا ہے اور یہی انفرادی سکون  سماجی استحکام کا باعث  بنتا ہے ۔ ماہرین کی زیرِ نگرانی نوجوانوں کے اس مسئلے پر خالص عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور اس بات کو یقینی بنانا بھی ضروری ہے کہ جو بھی منصوبہ شروع کیا جائے وہ مسلسل اور کار آمد ہو ۔ 

روز بروز بڑھتی معاشی مشکلات  نوجوانوں میں بہت سے نفسیاتی مسائل کو بھی جنم دے رہی ہیں۔  ذہنی انتشار بدگمانیوں کو جگہ دیتا ہے جس کے نتیجے میں یہ نوجوان  ملک  دشمن تخریبی عناصر کا آسان ہدف ثابت ہو سکتے ہیں ۔عارضی اور ناپائیدار اسکیموں کی بجائے مستقل نوعیت  کے  منصوبوں کی ضرورت ہے تاکہ یہ نوجوان   نہ صرف معاشی طور پر خود کفیل ہو سکیں بلکہ  ملکی معیشت اور مجموعی ترقی میں بھی اپنا  کردار ادا کر سکیں ۔ ایسا نہ ہو کہ بے سمت رواں دواں یہ جذبہ مند قافلے منزل نہ ملنے کے دکھ اور بے شعور تقلید میں بد دل اور مایوس ہجوم میں تبدیل ہوجائیں ۔گزشتہ افعال و اعمال کا محاسبہ نہ سہی آئندہ کے لیے ہی  کوئی  بہتر لائحہ عمل ترتیب دیا جا سکتا  ہے  ۔ اس بات کا سراغ  لگانا بھی  ضروری ہے کہ اگر اتنی دہائیوں سے نوجوانوں کے لیے کا کام ہو رہا ہے تو نتائج سامنے کیوں نہیں آرہے اور محنت رائیگاں کیوں ہے اگر کچھ کام نہیں ہو رہا تو اس کے اسبا ب کیا ہیں ؟

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...