”سپیرئیر یونیورسٹی“ کے ”جنگل میں منگل“ کا منظر

”سپیریئر یونیورسٹی رائے ونڈ روڈ لاہور“ نے 10 اپریل 2010ءکی شب اپنی ایک ایسی گرینڈ گالا، سالانہ تقریب منعقد کرنے کے لئے وقف کی جو اپنی آغوش میں ”بڑے کھانے“ کے علاوہ پاکستان کی عظیم علمی و فکری و ثقافتی و صحافتی و سیاسی شخصیات کو اس طرح سمیٹے ہوئے تھی جس طرح آسمان نیلگوں آفتاب و سیارگانِ درخشاں کو اپنی جبین پر مزین کئے ہوئے ہوتا ہے۔ ان میں ٹیلی ویژن اینکرز، کالم نگار اور گلوکار بھی موجود تھے۔ اس یونیورسٹی کا ایک کیمپس یوں تو کلمہ چوک فیروز پور روڈ لاہور کے پہلو میں بھی موجود ہے لیکن اس یونیورسٹی کے منتظمین نے میاں نوازشریف کی ”جاتی عمرہ“ کے قریب رائے ونڈ سے چند کلو میٹر پہلے ایک وسیع و عریض ایسا کیمپس قائم کیا ہے جو تعلیمی شعبوں کے علمی پھیلاو کے تقاضوں پر پور اترنے کے ساتھ پارکنگ، کی ضروریات کو بھی پورا کرتا ہے، اس کیمپس کو آج کی شب اتنی کامیابی سے ایک بقعہ نور بنا دیا گیا تھا کہ رات دو بجے تک اسے ”لوڈ شیڈنگ“ سے مکمل طور پر محفوظ رکھا گیا، جیّد صحافیوں کو نمایاں طور پر براجمان کرنے کے لئے اس یونیورسٹی کے وائس چانسلر چودھری عبدالرحمان نے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ پروفیسر عطاءالرحمان کی نگرانی میں ایک خصوصی چبوترا تیار کرایا تھا اور جب معروف ترین صحافیوں کو متبّسم دیکھا اور ان کے چہروں پر فراغت دمکتی ہوئی نظر آئی تو چودھری عبدالرحمان جو اس یونیورسٹی کے کئی کئی صفحات کے سینے پر پھیلے ہوئے اشتہارات میں اس یونیورسٹی کے علمی مقاصد کی طرح جلوہ گر ہوتے ہیں ان عالی دماغ قلم کاروں سے بالمشافہ ملاقات کے لئے تشریف لائے پھر چودھری محمد اکرم تشریف آور ہوئے، ان کی خدمات کی روشنی میں ان سے موسوم کردہ ”چودھری محمد اکرم سنٹر فار انٹرپری نیورشیپ ڈویلپمنٹ“ قائم کیا گیا ہے۔ انہی لمحات میں وزیر تعلیم پنجاب میاں مجتبیٰ شجاع الرحمان بھی اس چکا چوند تقریب میں پہنچے تو سیدھا صحافیوں کے انکلوژر میں آئے، وہ سیاسی اسرار ورموز کو اس حد تک سمجھتے ہیں کہ میاں محمد شہباز شریف جیسے کایاں سیاستدان بھی ان کو اپنا معتمد تصور کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں مگر بظاہر میاں مجتبیٰ شجاع الرحمان دھاگے کی طرح سیدھے اور لچکیلے معلوم ہوتے ہیں، وہ ایک ایک صحافی کے کارناموں ”اور مقام و مرتبت سے آگاہ ہیں چنانچہ جن پر مسکراہٹ قربان کرنا تھی ان سے مسکراتے ہوئے مصافحہ کیا اور جن کو معانقے کا اعزاز عطا کرنا تھا ان سے معانقہ کیا، اس دوران میں آتش بازی کا مظاہرہ شروع ہوگیا اور آتش باز کے قابل ستائش ہنر نے آسمان پر اس طرح رنگا رنگ پھول کھلا دئیے کہ آتش باز کی زیارت کر لینے کو جی چاہا مگر آتش باز وہاں شاید موجود نہیں تھے، تاہم رنگا رنگ آتشیں پھولوں کا ایک گلستان تو فضا میں کھلا ہوا تھا اور سینکڑوں خوبصورت، تازہ اور شگفتہ نوجوان چہروں کا ایک باغیچہ اس یونیورسٹی کے مزّین کمپاونڈ میں ”بہار بَہ رخ“ تھا، اس وقت ہمیں پاکستان کے ایک ممتاز نغمہ نگار حزیں قادری، کے ایک گیت کا وہ مکھڑا یاد آیا، جس میں انہوں نے عظیم گلوکار مہدی حسن کی آواز میں لوگوں کو محظوظ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ:
چَن ہو وے چودھویں دا بھانویں پہلی رات دا
میرے ایس دھرتی دے چن دا جواب نہیں
ہم آتش بازی کا روح پرور منظر دیکھ کر اپنے احساسات کے چمن میں کیف و سرور کی کلیاں مہکتی ہوئی محسوس کر رہے تھے کہ ”آر ڈی بی بینڈ“ کی ہوش ربا دھما آ آ آم“ کے ساتھ مقررین کو اور خاص طور سے چند صحافی مقررین کو سٹیج پر بلانے کا سلسلہ شروع ہو گیا مگر اس سلسلے میں کوئی باقاعدہ اعلان نہ کیا گیا چنانچہ جب سب سے پہلے ہارون الرشید کو بلایا گیا تو ان کی واپسی پر عطاءالحق قاسمی نے ان سے دریافت کیا کہ آپ کو پہلے وہاں کیوں بلایا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ دراصل سٹیج پر کوئی ایسا شخص موجود تھا جو گنجے لوگوں کے گنج کا علاج کرتا ہے چنانچہ مجھے بہترین گنجا سمجھ کر سٹیج پر مدعو کیا گیا مگر اس کے بعد جب عطاءالرحمان نے اپنے ”اختیارات انتخاب“ استعمال کرتے ہوئے عطاءالحق قاسمی کا ہاتھ پکڑ کر انہیں سٹیج پر جانے کا اشارہ کیا تو ہارون الرشید نے مسکراتے ہوئے کہا کہ قاسمی بھی کچھ گنجے تو ہیں مگر وہ کسی اور بیماری کا علاج کرانے کے لئے سٹیج پر گئے ہیں جبکہ مجھے کوئی اور بیماری ہے گویا انہوں نے ایک غیر ضروری سنجیدہ ”محفلِ صحافیاں“ کو قہقہہ عطا کیا۔ اینکر مبشر لقمان اور معمر صحافی الطاف حسن قریشی کے علاوہ امجد اسلام امجد نے بھی سٹیج پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور سپیرئیر یونیورسٹی کی تیز رفتار تعلیمی ترقی اور چودھری عبدالرحمان کی انتظامی و علمی صلاحیت کا اعتراف کیا، بعض نے فرمایا کہ بلاشبہ گذشتہ دس سال کے دوران سپرئیر یونیورسٹی زمین سے اٹھ کر آسمان تک علم و سائنس کی درخشانی پھیلا رہی ہے، عطاءالرحمان نے بتایا تھا کہ چند طلباءکے ساتھ جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کا آغاز کیا گیا تھا مگر اب تقریباً پانچ سو طلباءو طالبات شعبہ جرنلزم میں زیر تعلیم و تدریس ہیں۔ ہمیں بلایا جاتا تو ہم بھی سٹیج پر کچھ کہہ دیتے کہ بلاشبہ ہم بھی ایک اچھے مقرر متصور ہوتے ہیں مگر ڈنر کے ایوان کا دروازہ کھلنے سے پہلے ازراہِ احترام صحافیوں کو طعام کے پنڈال میں خیمہ زن کیا گیا۔ اس لئے مغیث الدین شیخ، احسن اختر ناز، فضل حسین اعوان، علی اصغر عباس اور ہم قطعاً محفوظِ اظہار و بیان و ستائش“ رہ گئے اور تحریکِ انصاف والے اعجاز چودھری نے دیگر منتظمین کے ساتھ ہمیں اس مقام پر پہنچایا جہاں کراکری نغمہ سرا تھی، اس وقت سٹیج پر آرڈی بی بینڈ والے اپنے رقص و سرود کی تیاری کر رہے تھے، کسی نے بتایا کہ وہ بینڈ بھارت سے آیا ہوا تھا تو اس نے تو اپنے فن کا جو مظاہرہ کیا ہوگا وہ کیا ہوگا مثالی نظم و ضبط کی گرفت میں رہ کر اس یونیورسٹی کے سینکڑوں طلباءوطالبات نے رات ڈیڑھ بجے تک جس طرح اپنے جذبہ بے خوف و خطر“ کا اظہار کیا اس سے ”آر ڈی بی“والے وہ پیغام ضرور بھارت لے جائیں گے کہ حالات کی شدت نے زندہ دلانِ لاہور پر کوئی اثر نہیں ڈالا، وہ آج بھی اپنے پاکستان کے نظریات و سرحدات کے تحفظ کے لئے اتنے ہی پرعزم و تیار ہیں کہ ان کے بے خوف و خطر اندازِ زندگی کو دیکھ کر اس پاک سرزمین کے دشمنوں کے چہرے اتر جاتے ہیں۔ بلاشبہ پاکستانی ایک عظیم اور زندہ جاوید قوم ہیں، وہ آزمائش کے الاو میں زیادہ باہمت اور پرعزم نظر آنے لگتے ہیں اور سپرئیر یونیورسٹی کی وہ رات اس حقیقت کی گواہ تھی۔

ای پیپر دی نیشن