چَن ہو وے چودھویں دا بھانویں پہلی رات دا
میرے ایس دھرتی دے چن دا جواب نہیں
ہم آتش بازی کا روح پرور منظر دیکھ کر اپنے احساسات کے چمن میں کیف و سرور کی کلیاں مہکتی ہوئی محسوس کر رہے تھے کہ ”آر ڈی بی بینڈ“ کی ہوش ربا دھما آ آ آم“ کے ساتھ مقررین کو اور خاص طور سے چند صحافی مقررین کو سٹیج پر بلانے کا سلسلہ شروع ہو گیا مگر اس سلسلے میں کوئی باقاعدہ اعلان نہ کیا گیا چنانچہ جب سب سے پہلے ہارون الرشید کو بلایا گیا تو ان کی واپسی پر عطاءالحق قاسمی نے ان سے دریافت کیا کہ آپ کو پہلے وہاں کیوں بلایا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ دراصل سٹیج پر کوئی ایسا شخص موجود تھا جو گنجے لوگوں کے گنج کا علاج کرتا ہے چنانچہ مجھے بہترین گنجا سمجھ کر سٹیج پر مدعو کیا گیا مگر اس کے بعد جب عطاءالرحمان نے اپنے ”اختیارات انتخاب“ استعمال کرتے ہوئے عطاءالحق قاسمی کا ہاتھ پکڑ کر انہیں سٹیج پر جانے کا اشارہ کیا تو ہارون الرشید نے مسکراتے ہوئے کہا کہ قاسمی بھی کچھ گنجے تو ہیں مگر وہ کسی اور بیماری کا علاج کرانے کے لئے سٹیج پر گئے ہیں جبکہ مجھے کوئی اور بیماری ہے گویا انہوں نے ایک غیر ضروری سنجیدہ ”محفلِ صحافیاں“ کو قہقہہ عطا کیا۔ اینکر مبشر لقمان اور معمر صحافی الطاف حسن قریشی کے علاوہ امجد اسلام امجد نے بھی سٹیج پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور سپیرئیر یونیورسٹی کی تیز رفتار تعلیمی ترقی اور چودھری عبدالرحمان کی انتظامی و علمی صلاحیت کا اعتراف کیا، بعض نے فرمایا کہ بلاشبہ گذشتہ دس سال کے دوران سپرئیر یونیورسٹی زمین سے اٹھ کر آسمان تک علم و سائنس کی درخشانی پھیلا رہی ہے، عطاءالرحمان نے بتایا تھا کہ چند طلباءکے ساتھ جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کا آغاز کیا گیا تھا مگر اب تقریباً پانچ سو طلباءو طالبات شعبہ جرنلزم میں زیر تعلیم و تدریس ہیں۔ ہمیں بلایا جاتا تو ہم بھی سٹیج پر کچھ کہہ دیتے کہ بلاشبہ ہم بھی ایک اچھے مقرر متصور ہوتے ہیں مگر ڈنر کے ایوان کا دروازہ کھلنے سے پہلے ازراہِ احترام صحافیوں کو طعام کے پنڈال میں خیمہ زن کیا گیا۔ اس لئے مغیث الدین شیخ، احسن اختر ناز، فضل حسین اعوان، علی اصغر عباس اور ہم قطعاً محفوظِ اظہار و بیان و ستائش“ رہ گئے اور تحریکِ انصاف والے اعجاز چودھری نے دیگر منتظمین کے ساتھ ہمیں اس مقام پر پہنچایا جہاں کراکری نغمہ سرا تھی، اس وقت سٹیج پر آرڈی بی بینڈ والے اپنے رقص و سرود کی تیاری کر رہے تھے، کسی نے بتایا کہ وہ بینڈ بھارت سے آیا ہوا تھا تو اس نے تو اپنے فن کا جو مظاہرہ کیا ہوگا وہ کیا ہوگا مثالی نظم و ضبط کی گرفت میں رہ کر اس یونیورسٹی کے سینکڑوں طلباءوطالبات نے رات ڈیڑھ بجے تک جس طرح اپنے جذبہ بے خوف و خطر“ کا اظہار کیا اس سے ”آر ڈی بی“والے وہ پیغام ضرور بھارت لے جائیں گے کہ حالات کی شدت نے زندہ دلانِ لاہور پر کوئی اثر نہیں ڈالا، وہ آج بھی اپنے پاکستان کے نظریات و سرحدات کے تحفظ کے لئے اتنے ہی پرعزم و تیار ہیں کہ ان کے بے خوف و خطر اندازِ زندگی کو دیکھ کر اس پاک سرزمین کے دشمنوں کے چہرے اتر جاتے ہیں۔ بلاشبہ پاکستانی ایک عظیم اور زندہ جاوید قوم ہیں، وہ آزمائش کے الاو میں زیادہ باہمت اور پرعزم نظر آنے لگتے ہیں اور سپرئیر یونیورسٹی کی وہ رات اس حقیقت کی گواہ تھی۔