پختون خواہ کا مقدمہ

روزنامہ نے اپریل2010ءکی اشاعت میں محترم رحیم اللہ یوسف زئی کی خصوصی تحریر پختون خواہ کا مقدمہ بڑی تفصیل کے ساتھ ‘ تاریخی واقعات کی روشنی میں دیکھا۔ ان کی تحریر کا لب لباب ”پختون خواہ“ کا نام پختونوں کی شناخت کرتا ہے کیونکہ دیگر صوبوں کے نام بھی ان کے مخصوص لسانی اکثریت کو ظاہر کرتے ہیں۔ پنجاب اور سندھ بھلے مخصوص دریاﺅں پر سہی مگر صوبے کی اکثریت آبادی پنجابی اور سندھی کہلاتی ہے۔ بلوچستان کا نام بھی بلوچوں کی وجہ سے ہے۔ تاہم براہوی زبان بولنے والے بھی ہیں۔
رحیم اللہ صاحب نے خود ہی بتا دیا کہ پنجاب کا نام پانچ دریاﺅں کی وجہ پر ہے۔ اتفاق ہے کہ پنجاب میں کئی طرز کی فیملیز میں ہندکو‘ سرائیکی‘ ملاقانی اور اردو بولی جاتی ہے اور رحیم صاحب کو معلوم نہیں کہ صوبہ سرحد کے یہ چھ اضلاع‘ ہزارہ‘ مردان‘ پشاور‘ کوہاٹ‘ بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان 1901ءسے قبل پنجاب کا حصہ تھے اور راجہ رنجیت سنگھ کی حکومت29 سال تک رہی۔ انگریز سرکار نے جب اس علاقہ کو 1849ءمیں فتح کیا۔50 برس تک موجودہ صوبہ سرحد جس کو آپ پٹھانوں کی شناخت گردانتے ہیں کسی پٹھان نے پختون کی شناخت کرانے کی کوشش نہیں کی۔ لارڈ کرزن وائسرائے ہند جب ہوئے تو انگریز سرکار نے 6غیر ترقی یافتہ اضلاع کو پنجاب سے ہٹا کر جغرافیائی پوزیشن کے حساب سے بارڈرز والے علاقے ملا کر شمال مغربی صوبہ سرحد کا نام اس لئے دیا کہ یہ علاقہ ہندوستان کے شمال مغرب میں واقع تھا اور مشرقی بنگال (مشرقی پاکستان) ہندوستان کے شمال مشرق میں تھا۔ جب بنگال کی تقسیم 1905ءمیں ہوئی تو مسلمانوں والے علاقہ کو جغرافیائی اعتبار سے مشرقی بنگال کہا گیا۔ ہمیں اپنے پختون بھائیوں سے بڑی ہمدردی ہے۔ ان کی شناخت ہونی چاہئے شناخت کسی کام‘ ریسرچ‘ بہادری‘ جرات سے ہوتی ہے۔ ہمارے ان بزرگوں نے اسماعیل شہید کے خلاف انگریز اور سکھوں کی امداد کی اور جاگیر حاصل کی۔ تحریک خلافت میں اتمان زئی کے نامور خان عبدالغفار خان نے حصہ لیا اور ساتھ اپنے رہنما مہاتما گاندھی بھی آ گئے۔ بادشاہ خان مہاتما گاندھی کے آشرم میں‘ واردھا کے مقام پر رہے۔ گاندھی جی کی عدم تشدد تحریک کو اپنایا۔ لباس میں تبدیلی کی‘ خیالات انڈین نیشنل کانگرس کے تھے۔ سرخ پوش تحریک چلائی۔ اتمان زئی میں گاندھی جی کے اصول کو عام کرنے کےلئے آشرم کی تعمیر کی حامی بھری اور مہاتما گاندھی نے سردار پٹیل کو مدارس کا گاندھی مقرر کیا اور خان عبدالغفار خان کو سرحدی گاندھی کا خطاب دیا۔ لہذا پختون لیڈر نے اپنی شناخت گاندھی ازم پر کرا لی اور اس پر برقرار رہے اور ان کی پیروکاری پر فخر کرتے رہئے کہ ہم بادشاہ خان کے اصولوں‘ خیالات پر کاربند ہیں۔
محترم رحیم یوسف زئی صاحب! ہشت نگر کے پختون کی شناخت کانگریس اور گاندھی جی ہے اور ان کا لقب سرحدی گاندھی ہے۔ اب اس لقب کو کیسے پکاریں گے۔ خیبر پختون خواہ“ گاندھی جی تو تاریخ الٹ جائے گی۔ ہم سب مسلمان ہیں۔ اسلام میں ذات پات کا تصور نہیں۔ ذات پات کا تصور آرین‘ پنڈتوں اور کچھ جرمنی کے نازی میں تھا۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے پشاور میں قبائلی جرگے سے 17اپریل 1948ءمیں فرمایا: ہم مسلمان ایک خدا‘ ایک کتاب(قرآن) اور ایک رسولﷺ پر ایمان رکھتے ہیں۔ ہمیں ایک قوم کی حیثیت سے متحد ہو کر رہنا چاہئے کیونکہ اتحاد میں برکت ہے۔ اتحاد بقا کی ضامن ہے اور انتشار تباہی کا سبب ہے۔ یہ تھوڑی شناخت ہے کہ ہم آزاد ہیں۔ پاکستانی ہیں‘ نہ ہندو کے غلام ہیں نہ انگریز کے“۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ نے اپنی شناخت‘ اپنی صاف نیت‘ ذہانت اور بلند کرداری سے کرائی۔ آپ نے جو تقریر اسلامیہ کالج میں 13اپریل 1948ءکو فرمائی وہ پڑھ لیں۔ نبی کریمﷺ نے حجة الوداع کے موقع پر صاف صاف قرآن کی ترجمانی کی۔ کسی کالے کو گورے پر فوقیت نہیں کسی عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت نہیں۔ اپنے اعمال کو درست کریں۔
اگر پختونوں نے اپنی شناخت کرانی ہے تو پاکستان کو دل و جان سے عزیز سمجھیں۔ اس کی ترقی میں حصے دار ہوں۔ دشمنوں کے ساتھ دوستی نہ رکھیں۔ کالا باغ ڈیم بننے دیں۔ پختون کالا باغ ڈیم خود تعمیر کروائیں۔ تاریخ میں نام بھی ہو گا۔ شناخت بھی ہو گی۔ واپڈا کے سابق چیئرمین محترم شمس الملک نے اپنی شناخت بطور کٹر پاکستانی کے کرائی۔ نوشہرہ کے پٹھان نے صاف صاف بتایا کہ کالا باغ ڈیم پاکستان کی خوشحالی کا ضامن ہے۔

ای پیپر دی نیشن