اردو سائنس بورڈ بہت بڑی قومی خدمت انجام دے رہا ہے اور سائنس کو نئی نسل میں فروغ دینے کے لئے بہت سے اہم منصوبوں پر کام کر رہا ہے جن میں سرفہرست اردو سائنس انسائیکلو پیڈیا‘ اردو سائنس میگزین (سہ ماہی) اردو سائنس سیریز جس میں میٹرک تک کے طلبہ کے لئے سائنسی کتب کی اشاعت تاکہ ان کے اندر سائنس کے مضامین سے دلچسپی پیدا ہو۔
ہفتہ کے روز الحمرا میں ایک بہت اہم اور مفید ”لغت“ کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی جس کی صدارت وفاقی وزیر مملکت برائے تعلیم مہر غلام فرید کاٹھیا تھے۔ بولنے والوں میں امجد اسلام امجد‘ شہزاد احمد شہزاد‘ ڈاکٹر نوید شہزاد‘ پروفیسر ایوب‘ اشوک کمار کھتری‘ کتاب کے مولف پروفیسر عبدالعزیز مینگل اور ڈائریکٹر جنرل اردو سائنس بورڈ اقبال نبی ندیم۔
ڈی جی اقبال ندیم نے ادارے اور اس مے منصوبوں کا تعارف کرایا اور بتایا کہ اس وقت تک سائنس کے مختلف موضوعات پر 800 کتابیں شائع کی جا چکی ہیں۔ ان میں سے تیس کتابوں پر انعامات بھی حاصل کئے ہیں۔ سائنس کو نوجوان نسل میں مقبول کرنے کے لئے بہت کچھ کیا جا رہا ہے۔ کینسر‘ مریخ اور سائنسی اصطلاحات اور پس منظر جیسی کتابیں بہت جلد شائع ہونے والی ہیں۔
”9 زبانی لغت“ کے مولف پروفیسر عبدالعزیز مینگل نے جو ریٹائرڈ پرنسپل گورنمنٹ کالج آف کامرس کوئٹہ ہیں انہوں نے بہت اہم نکتہ بیان کیا کہ پاکستان کی علاقائی زبانوں پشتو‘ سندھی‘ براہوئی‘ پنجابی‘ بلوچی‘ سرائیکی کے ساتھ اردو‘ فارسی اور انگریزی کے مشترکہ یا قریب ترین الفاظ کو 658 صفحات کی لغت میں جمع کیا گیا ہے اور سب سے اہم کام مترادفات میں سے صرف ایک لفظ کا انتخاب تھا اور اس کام میں دوسرے اہل علم نے ہاتھ بٹایا۔
پروفیسر عبدالعزیز مینگل نے کہا ”عالمگیریت کی وجہ سے آج دنیا میں بے شمار زبانوں کو اپنی بقا اور زیست کا خطرہ درپیش ہے۔ ان میں زبانوں کے گوناگوں معاشی‘ معاشرتی‘ سیاسی اور نفسیاتی اسباب ہیں لیکن ذرائع ابلاغ کی موجودہ یورش و یلغار کی وجہ سے ان زبانوں پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور چھوٹی زبانیں معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔ چھوٹی زبانیں بولنے والے سیاسی‘ سماجی اور اقتصادی لحاظ سے اپنے سے کمتر سمجھ کر ترقی یافتہ زبانوں کو اشرافیہ کی زبان سمجھ کر ان میں رنگتے چلے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنی ثقافت‘ تاریخ اور رسم و رواج سے بھی محروم ہوتے جا رہے ہیں“۔
اب اگر اس نظریہ سے موجودہ تعلیمی پالیسی کو دیکھا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ ابتدائی درجے میں بھی انگریزی لازمی کی جا رہی ہے۔ وزیر تعلیم سے جب نوائے وقت نے پوچھا کہ امتحان پاس کرنے کے بعد اینٹری ٹیسٹ کی کیا ضرورت ہے؟ تو وزیر تعلیم غلام فرید کاٹھیا نے کہا کہ ”سرکاری پالیسی تو مجھے معلوم نہیں ہے لیکن ذاتی رائے میں امتحان پاس کرنے کے بعد ذہین طلبہ کا اینٹری ٹیسٹ ان کی ذہانت کی توہین ہے۔ اے اور او لیول کو بھی ختم ہونا چاہئے“۔ اس موقع پر ڈاکٹر غزالہ نسیم نے اپنی نوعیت کی اردو میں پہلی کتاب ”کچھ ماحولیاتی اور ارضیاتی مسائل! سائنسی نکتہ نظر“ وزیر تعلیم کو پیش کی۔ اس کتاب کو ہائر ایجوکیشن کمشن انگریزی میں بھی شائع کر رہا ہے۔
ہفتہ کے روز الحمرا میں ایک بہت اہم اور مفید ”لغت“ کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی جس کی صدارت وفاقی وزیر مملکت برائے تعلیم مہر غلام فرید کاٹھیا تھے۔ بولنے والوں میں امجد اسلام امجد‘ شہزاد احمد شہزاد‘ ڈاکٹر نوید شہزاد‘ پروفیسر ایوب‘ اشوک کمار کھتری‘ کتاب کے مولف پروفیسر عبدالعزیز مینگل اور ڈائریکٹر جنرل اردو سائنس بورڈ اقبال نبی ندیم۔
ڈی جی اقبال ندیم نے ادارے اور اس مے منصوبوں کا تعارف کرایا اور بتایا کہ اس وقت تک سائنس کے مختلف موضوعات پر 800 کتابیں شائع کی جا چکی ہیں۔ ان میں سے تیس کتابوں پر انعامات بھی حاصل کئے ہیں۔ سائنس کو نوجوان نسل میں مقبول کرنے کے لئے بہت کچھ کیا جا رہا ہے۔ کینسر‘ مریخ اور سائنسی اصطلاحات اور پس منظر جیسی کتابیں بہت جلد شائع ہونے والی ہیں۔
”9 زبانی لغت“ کے مولف پروفیسر عبدالعزیز مینگل نے جو ریٹائرڈ پرنسپل گورنمنٹ کالج آف کامرس کوئٹہ ہیں انہوں نے بہت اہم نکتہ بیان کیا کہ پاکستان کی علاقائی زبانوں پشتو‘ سندھی‘ براہوئی‘ پنجابی‘ بلوچی‘ سرائیکی کے ساتھ اردو‘ فارسی اور انگریزی کے مشترکہ یا قریب ترین الفاظ کو 658 صفحات کی لغت میں جمع کیا گیا ہے اور سب سے اہم کام مترادفات میں سے صرف ایک لفظ کا انتخاب تھا اور اس کام میں دوسرے اہل علم نے ہاتھ بٹایا۔
پروفیسر عبدالعزیز مینگل نے کہا ”عالمگیریت کی وجہ سے آج دنیا میں بے شمار زبانوں کو اپنی بقا اور زیست کا خطرہ درپیش ہے۔ ان میں زبانوں کے گوناگوں معاشی‘ معاشرتی‘ سیاسی اور نفسیاتی اسباب ہیں لیکن ذرائع ابلاغ کی موجودہ یورش و یلغار کی وجہ سے ان زبانوں پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور چھوٹی زبانیں معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔ چھوٹی زبانیں بولنے والے سیاسی‘ سماجی اور اقتصادی لحاظ سے اپنے سے کمتر سمجھ کر ترقی یافتہ زبانوں کو اشرافیہ کی زبان سمجھ کر ان میں رنگتے چلے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنی ثقافت‘ تاریخ اور رسم و رواج سے بھی محروم ہوتے جا رہے ہیں“۔
اب اگر اس نظریہ سے موجودہ تعلیمی پالیسی کو دیکھا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ ابتدائی درجے میں بھی انگریزی لازمی کی جا رہی ہے۔ وزیر تعلیم سے جب نوائے وقت نے پوچھا کہ امتحان پاس کرنے کے بعد اینٹری ٹیسٹ کی کیا ضرورت ہے؟ تو وزیر تعلیم غلام فرید کاٹھیا نے کہا کہ ”سرکاری پالیسی تو مجھے معلوم نہیں ہے لیکن ذاتی رائے میں امتحان پاس کرنے کے بعد ذہین طلبہ کا اینٹری ٹیسٹ ان کی ذہانت کی توہین ہے۔ اے اور او لیول کو بھی ختم ہونا چاہئے“۔ اس موقع پر ڈاکٹر غزالہ نسیم نے اپنی نوعیت کی اردو میں پہلی کتاب ”کچھ ماحولیاتی اور ارضیاتی مسائل! سائنسی نکتہ نظر“ وزیر تعلیم کو پیش کی۔ اس کتاب کو ہائر ایجوکیشن کمشن انگریزی میں بھی شائع کر رہا ہے۔