یہ افسانہ نگاری نہیں، سو فی صد سچائی ہے۔ بیان کرنے میں صرف اتنی خیانت ہوئی ہے کہ نام بدل دیا گیا ہے فسادِ خلق سے بچنے کیلئے۔ لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے! ہم میں سے نوے فی صد لوگ یہی کرتے ہیں۔ وقت طے کر کے پہنچتے ہی نہیں، پہنچیں تو گھنٹوں کی تاخیر کے ساتھ پہنچتے ہیں یا کسی دوسرے نے ہمارے پاس پہنچنا ہے تو ہم غائب ہوتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ آنےوالا کتنی دور سے آ رہا ہے، کس موسم اور کن حالات میں آ رہا ہے۔ اب تو موبائل فون کا زمانہ ہے۔ خواجہ سرا¶ں کے گھر بچہ پیدا ہوا تھا تو انہوں نے اُسے چوم چوم کر مار دیا تھا، پاکستانیوں کو موبائل فون ملے تو ایک ایک ”عقل مند“ نے چار چار سِم رکھی ہوئی ہیں، لیکن اتنی توفیق نہیں ہوتی کہ جس سے وعدہ کیا ہوا ہے اُسے پروگرام میں تبدیلی کے بارے میں بتا دیں۔ جن ”ذوالفقار“ صاحب کا ذکر اوپر ہوا ہے وہ متشرع ہیں، ایک مذہبی تحریک کے باقاعدہ رکن ہیں، ایک مسجد کے منتظم ہیں، خوبصورت آواز سے نعتِ رسول پڑھتے ہیں، ہر سال عمرہ کرتے ہیں لیکن اُنکے اسلام میں اس بات کی گنجائش نہیں کہ وہ وعدہ ایفا کریں۔ مجھے معلوم نہیں، لیکن میرا گمان ہے کہ انہوں نے نصیحت و وعظ کے طوفان میں بہتے ہوئے لوگوں کو یہ ضرور بتایا ہو گا کہ اللہ کے رسول سے کسی نے کہا کہ آپ یہیں کھڑے رہیں، میں آتا ہوں۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان، آپ نے وعدہ فرما لیا۔ وہ شخص بھول گیا۔ آپ تین دن اُس جگہ سے نہ ہلے، انتظار فرماتے رہے، یہاں تک کہ اُس شخص کو یاد آ گیا اور وہ واپس آیا! ہم مسلمان بالعموم اور ہم پاکستانی بالخصوص اس وقت جس اخلاقی زوال سے دوچار ہیں اُس کی شاید ہی کوئی مثال مل سکے۔ حالی نے جو کچھ 1889ءمیں کہا تھا آج بھی صحیح ہے
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
اسلام کا گر کر نہ ابھرنا دیکھے
مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے
(کیا ہم اتنا بھی نہیں کر سکتے کہ مسدسِ حالی اپنے بچوں کو سبقاً سبقاً پڑھا دیں تاکہ انہیں معلوم ہو سکے کہ ہم میں اور ترقی یافتہ قوموں میں کیا فرق ہے؟) ۔
پستی کی اس گہرائی میں گرنے کے باوجود نعرہ یہ ہے کہ ہمارے جیسا کوئی نہیں اور ہمارے علاوہ سارے گمراہ ہیں اور بدبخت ہیں! اپنے گریبان میں جھانکنے کے بجائے دوسروں کی تنقیص، بُرائی اور تضحیک ہمارا قومی شعار بن چکا ہے، حالانکہ دنیا نہ صرف مادی لحاظ سے بلکہ اخلاقی لحاظ سے بھی ہم سے کہیں آگے نکل گئی ہے۔ حال ہی میں ایک پاکستانی ادیبہ ایک غیر مسلم ملک کا دورہ کر کے واپس آئی ہیں۔ دیکھئے، کیا کہتی ہیں!
”ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ شہرِ .... کی ترقی، تزئین و آرائش اور نظام دیکھ کر ہم متاثر ہوئے اور رشک میں مبتلا ہو گئے کہ کاش! ہمارے ملک میں بھی ایسا ہی کوئی نظام چلتا نظر آئے جس میں عوام کی سہولت اور آسانی کو ہی پیش نظر رکھا گیا ہو۔ ہمیں پہلے بھی آنے کا اتفاق ہو چکا ہے مگر اب کے پہلے کی نسبت شہر زیادہ قاعدے والا محسوس ہوا۔ تجاوزات کا نام و نشان نہ تھا۔ ہمیں میٹرو ٹرین (زیر زمین ریلوے) ، بس، آٹو رکشے میں سفر کرنے کا اتفاق ہوا تو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ کرائے بہت ہی کم تھے، سب آرام چین سے سفر کرتے تھے، نہ دھکم پیل، نہ رش نہ بیزاری نہ کوفت، خواتین دن ہو یا رات بے فکری سے پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتی ہیں موٹر بائیک چلاتی ہیں مگر انہیں کوئی ہراساں نہیں کرتا۔ اسکے برعکس ہمارے اسلامی معاشرے میں ایسا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ یہاں تو عورت کسی بھی عمر کی ہو کوئی لباس پہنے ہوئے ہو اُسے ہوس ناک نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شہر میں ہمیں کوئی سپیڈ بریکر، مورچہ، پولیس ناکہ یا سنگین بردار فوجی نظر نہیں آئے۔ یہ نعمتیں شاید صرف ہمارے ہی نصیبوں میں لکھی جا چکی ہیں۔ ہمسایہ ملک کے سکھ دیکھ کر ہمیں اپنے گھر کے دکھ بہت یاد آئے۔“
حالی ایک بار پھر یاد آ رہے ہیں :
سمجھے ہیں گمراہ جن کو مسلماں
نہیں جن کو عقبیٰ میں امیدِ غفراں
نہ حصہ میں فردوس جن کے نہ رضواں
نہ تقدیر میں حور جن کے نہ غلماں
وہ ملک اور ملت پہ اپنی فدا ہیں
سب آپس میں اک اک کے حاجت روا ہیں
اولوالعلم ہیں ان میں یا اغنیا ہیں
طلب گارِ بہبودِ خلقِ خدا ہیں
عروج ان کا جو تم عیاں دیکھتے ہو
جہاں میں انہیں کامراں دیکھتے ہو
مطیع ان کا سارا جہاں دیکھتے ہو
انہیں برتر از آسماں دیکھتے ہو
یہ ثمرے ہیں ان کی جواں مردیوں کے
نتیجے میں آپس کی ہمدردیوں کے