کائناتی توانائی سے تخلیق یہ شیاطین اور ان کے بعض نیک ملائکہ صفت افراد لمحہ بھر میں لامحدود فاصلے طے کر لیتے ہیں

کائناتی توانائی سے تخلیق یہ شیاطین اور ان کے بعض نیک ملائکہ صفت افراد لمحہ بھر میں لامحدود فاصلے طے کر لیتے ہیں۔ روشنی کی مقررہ رفتار جیسے ہمارے قوانین ان کی ہائپر کائنات میں لاگو نظر نہیں آتے۔ جیسے:
”اور ہم (جنات) نے آسمان کو چُھوا (گھوم کے دیکھا)“۔ (الجن (8:
آسمان کی گہرائیوں کو مختصر وقت میں چھان لینے کی طاقت رکھنے والی یہ مخلوق، جنات روشنی کی رفتار سے تیز سفر کر لیتے ہیں۔ ہائپر اسپیس کے قوانین بے شک ہم سے مختلف ہیں۔ لیکن ہائپر اسپیس کی تعریف کیا ہے؟
ہائپر سپیس :(Hyper Space)
ہماری اس تین سمتی کائنات میں توانائی لہروں کے جن طبقات تک سائنس و ٹیکنالوجی نے رسائی حاصل کر لی ہے ان کو مندرجہ ذیل جدول میں ظاہر کیا گیا ہے۔

ہماری آنکھیں اس درجہ بندی کے ایک نہایت ہی معمولی سے حصے میں کام کرتی ہے۔ یہی حال ہمارے کانوں یا دوسرے حواس کا ہے۔ اس جدول کی شعا¶ں کا کچھ حصہ ہمارے سائنسی آلات کی گرفت میں ہے۔ جسے ہم نے گزشتہ تقریباً ڈیڑھ سو سال میں دریافت کیا ہے۔ اس جدول سے ظاہر ہوتا ہے کہ توانائی و شعا¶ں کے دیگر کئی درجے یا مقامات ابھی تک ہماری گرفت سے باہر ہیں۔ تازہ ترین انکشاف کے مطابق ہماری کائنات 73 فیصد ”سیاہ توانائی، اور 23 فیصد سیاہ مادے پر مشتمل ہے۔ ان کی ماہیت و تفصیل جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس لحاظ سے ہمیں نظر آنے والی یہ کائنات صرف 4 فیصد ہے۔ باقی 96 فیصد کائناتی حصے کے متعلق ہمارا علم صفر ہے۔ اس معمولی 4 فیصد حصے کی گہرائیوں میں دور، پرے کیا ہو رہا ہے؟ اس کا بھی ہمیں کوئی علم نہیں۔ مثلاً سورج کے بعد ہمارے قریب ترین دوسرا ستارہ ہم سے لگ بھگ پانچ نوری سال کی دوری پر واقع ہے۔ یعنی اس کی روشنی ہم تک پہنچنے میں پانچ سال کا وقت لیتی ہے۔ آج اگر وہ ستارہ دھماکے سے پھٹ جائے تو ہمیں پانچ سال بعد اس کی خبر ہو گی۔ اسی طرح مزید آگے بڑھنے سے وقت کے یہ وقفے بھی بڑھتے ہوئے چودہ ارب نوری سالوں تک چلے جاتے ہیں۔ ہمیں کیا خبر شاید یہ سارا کائناتی نظام ہی بھک سے اُڑ چکا ہو۔ یہ خبر یعنی ایسا واقعہ یہاں کسی لمحے برپا ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ہم بھی اسی کائنات کا حصہ ہیں۔
آپ اس وقت بڑے سکون سے مطالعہ میں مصروف ہیں۔ لیکن آپ کے چاروں طرف ہوا و فضاءمیں ان گنت قسم کی توانائی، لہروں و شعاعوں کا ایک پوشیدہ سمندر جھل تھل کر رہا ہے۔ اپنے موبائل کو استعمال کریں تو وہ ان شعاعوں کے سمندر سے اپنے مطلب کی لہروں کو پکڑ لے گا۔ ٹی وی یا ریڈیو کو کھولیں تو وہ مخصوص لہریں استعمال کر لیں گے جو ان آلات کے لئے کارآمد ہیں۔ مائیکرو ویوز پر دودھ گرم کرنے کیلئے کچھ نئی قسم کی لہروں نے ہمارا یہ مسئلہ بھی حل کر دیا۔ توانائی و نور کے اس پھیلے ہوئے سمندر کے ایک نہایت ہی معمولی حصے کو استعمال کرنے کا طریقہ ہم نے سیکھ لیا ہے۔ لیکن اس کے دیگر بے شمار طبقے و درجات ممکن ہیں۔ توانائی کے یہ طبقے اس وقت ہمارے علم و عقل کی دسترس سے باہر ہیں۔ ان حالات کے تحت ہم دیگر غیر مادی مخلوقات کے طبقات کی تفصیلات کو کیسے بیان کر سکتے ہیں۔ اگر انسانی ترقی کی موجودہ رفتار برقرار رہی تو ڈیڑھ دو سو سال میں ہائپر اسپیس کے بعض درجات تک ہماری رسائی ممکن ہو سکتی ہے۔
کائناتی توانائی کی آتشیں مخلوق میں ابلیس سب سے بڑا ہے۔ اس کی طاقت و اعمال کا سلسلہ سارے انسانوں تک وسیع ہے۔ و ہ    ہمارے ارادہ و خیال کی قوتوں میں دخل اندازی کر کے ہمیں غلط سمتوں اور مواقع کی ترغیبات دیتا اور عمل پر اکساتا رہتا ہے۔
”اور بہکا دے اپنی آواز سے ان میں سے جس پر تیری ہمت ہے“۔ (بنی اسرائیل: (64
ابلیس و گروہ ابلیس صرف اپنی ”آواز“ یعنی کسی غیر معمولی براڈ کاسٹنگ طرز کے سسٹم سے ہر انسان کی دماغی لہروں و سوچ کے ذریعے منفی رحجانات کو فروغ دیتا ہے۔ مجسم شکل میں جسمانی طور پر ہم سے زبردستی کرنے یا طاقت و تشدد کے استعمال کی اس میں استطاعت نہیں ہے۔ شاید اسے اس طریقہ کار کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
لیکن کیا اس آتشیں مخلوق میں دیگر لوازمات زندگی کھانا، پینا، سونا، جاگنا، گھریلو و معاشرتی زندگی یا موت و حیات کا سلسلہ بھی ہے؟
غالباً یہ سارے معاملات موجود ہیں۔ لیکن ہماری طرز کے نہیں ہو سکتے۔ شاید یہ لوگ خلاءمیں ستاروں کی ضیاءسے اپنی قوت حاصل کر لیتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان میں سے بعض گروہوں کی بستیاں مخصوص ستاروں کے بیرونی حلقے یا خول اور ہمارے نظام شمسی کے دیگر سیاروں میں پائی جاتی ہوں۔ اگر زمین کی مٹی سے تخلیق آدم و بنی آدم کا وجود زمین پر ممکن ہے تو پلازمک آتشیں مخلوق کا وجود پلازمے کے ماحول میں ہونے سے کیا امر مانع ہو سکتا ہے؟ بے شک یہ ہمارے لئے تعجب خیز ہونا قابل تصور ہے۔
انکار سجدہ کے موقع پر ابلیس نے قیامت تک کے لئے زندگی کی مہلت مانگی تھی۔ یہی مہلت اس کی طبعی زندگی کی ضمانت تھی۔ اس کی دیگر انواع و اقسام میں موت و حیات کا نظام ثابت ہوتا ہے۔ جیسے:
”اور ان (انسانوں) کو بھی یہ گمان تھا جیساکہ تمہیں (جنوں) کو گمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر گز کسی کو (بعد از موت) نہ اٹھائے گا“۔ (الجن: (7
جسمانی وجود کی مالک رجلک نوع شیاطین میں موت و حیات ایک قدرتی امر بن جاتا ہے۔ یہ گروپ کسی نہ کسی زمین سے وابستہ ہو کر زندگی گزارتا ہے۔ زمینی نظام سے منسلک ہونے پر وہاں کے قدرتی حوادث، زمینی تغیرات و عوامل کے جملہ اثرات ان پر پڑتے ہیں۔ جس سے زندگی و موت کا نظام لاگو ہو جاتا ہے۔ جنات کی ان اقسام میں جنسی رغبت کا حوالہ بھی ملتا ہے۔ جےسے:
”ان (حوروں) کو پہلے کسی انسان و جن نے ہاتھ نہےں لگاےا۔ (الرحمٰن :74)
ابن آدم کی طرح اس پلازمک مخلوق کو بھی ارادہ و خےال سے اپنے اعمال کی آزادی ہے۔ اس لئے ان مےں مختلف مذاہب و عقےدے موجود ہےں۔ جےسے:
”اور ےہ کہ ہم مےں کچھ نےک ہےں اور کچھ دوسری طرح کے ہم کئی راہوں مےں پڑے (بھٹکے) ہوئے ہےں۔“ (الجن: 11)
آتشےں مخلوق مےں سے بعض کا نبی پاک سے قرآن و ہداےت کی تعلےم حاصل کرنا ثابت ہے۔ ان مےں مسلمان و مومنےن بھی موجود ہےں۔ لےکن ان کے کفار طبقے مےں کےا رسم و رواج ےا رسومات ہےں؟ ان کا دےن کےسا ہے؟ کےا ان مےں بت پرستی وتثلےث ےا اس طرح کے دےگر عقائد بھی موجود ہےں؟ اس پر کہےں کوئی تفصےل نہےں ملتی۔ مصنف کی زےر طبع کتاب ”زمےن پر آتشےں مخلوق کی قبل از تارےخ بستےاں“ مےں بڑی عمدہ بحث کی گئی ہے۔
ابلےسی نوع کے غےر جسمانی خےلک گروپ کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ ےہ لوگ اللہ تعالیٰ کی وحدانےت پر ےقےن رکھتے اور انتہائی عبادت گزار بھی تھے۔ خالق کائنات کی بزرگی اور کبرےائی کا مشاہدہ بھی کرتے تھے لےکن انکار سجدہ کے موقع پر بغاوت پر اتر آئے اور ہمےشہ کے لئے ملعون قرار دئےے گئے۔ بعض ممالک کے ادبی لٹرےچر مےں انہےں باغی فرشتوں کا لقب دےا جاتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن