کہا جاتا ہے کہ جیسی عوام ویسے حکمران! یہ بھی کہتے ہیں کہ محکمہ پولیس ہو یا کوئی سرکاری محکمہ اس میں موجود کالی بھیڑوں کو کس طرح ہدف تنقید بنایا جا سکتا ہے جب ہم میں سے لوگ ان محکموں میں شامل ہو کر ظلم، بربریت اور کرپشن کی انتہا کر دیتے ہیں۔ یہ لوگ انہی دائروں میں سفر کرتے ہیں جن دائروں میں معاشرہ انہیں گردش کرنے پر مجبور کرتا ہے اور پھر گردش ایام کے ایسے رنگ ڈھنگ ان پر نقش ہوتے ہیں کہ خود پورا معاشرہ چیخ و پکار میں مصروف ہو جاتا ہے۔ آہ فغاں کرنیوالے بھول جاتے ہیں کہ انہیں ایسے لوگوں کی صورت میں وہی واپس مل رہا ہے جو انہوں نے ان کو دیا تھا۔ فزکس کے مشہور سائنسدان نیوٹن کے موشن کے حوالے سے ایک لاءمیں سے ایک قانون یہ بھی ہے کہ ہر ایکشن کا ایک برابر اور متضاد ری ایکشن ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں شاید ایسے ایکشن کے متبادل ری ایکشن کا سلسلہ جاری ہے۔ ان دنوں انتخابات کا خوب چرچا ہے۔ انتخابی میدان سج چکا ہے۔ انتخابی دنگل میں بڑے بڑے سورما اور پہلوان لنگوٹ کس کے اتر چکے ہیں۔ خواتین کی بھی کمی نہیں جو مخصوص نشستوں کے علاوہ عملاً سیاست کے خاردار میدان میں قدم رکھ کر اپنی کامیابی کیلئے زورآزمائی میں مصروف ہیں۔ ان دنوں تو خواجہ سراءبھی میدان سیاست میں موجود ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ آزمائے ہو¶ں کو آزمانے کی بجائے ہمیں ایک مرتبہ آزما کر دیکھیں۔ جو بھی ہو ایک بات طے ہے کہ معاشرتی طور پر ہمارے انفرادی رویے وہ نہیں جو کسی ایسی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکیں جس کو مدنظر یا پیش نظر رکھ کر کہا جا سکے کہ آمدہ انتخابات میں انقلاب کے لئے کوئی آہٹ سنائی دے گی یا پھر انقلاب کی جانب کوئی راہ چل نکلے گی۔ جب تک ہم اپنے انفرادی رویے اور اپنے ظاہر باطن کو تبدیل نہیں کرتے کچھ بہتری نہیں آ سکتی۔ گذشتہ روز کسی نے طعنہ دیا کہ آپ کے الفاظ شاید اپنے نہیں، میں بہت سارے ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جنہیں سیاسی جماعتیں تجزیے اور کالم نہ صرف تیار کر کے فراہم کرتی ہیں بلکہ ان کو باقاعدہ کمپیوٹر پر کمپوز کر کے فراہم کیا جاتا ہے اس کے ساتھ ان کو لفافہ ازم کی بھینٹ بھی چڑھایا جاتا ہے۔ وہ لوگ جو چند شخصیات کے قصیدے لکھتی ہیں اور پھر ان کی محفلوں میں اپنے آنے جانے کا تذکرہ کر کے اخبارات کے صفحات ضائع کرتے ہیں میں انہیں بھی جانتا ہوں وہ لوگ بھی میرے پوشیدہ نہیں جو اپنے وفات پا جانے والے بزرگوں کو بھی نہیں بخشتے اور پھر اپنے فوت ہو جانے والے ماں باپ کی جھوٹی قسمیں کھا کر لوگوں کو فریب کی راہ دکھاتے ہیں جس کے بعد بغل میں چھری اور منہ میں رام رام کرتے ہوئے ان کی پیٹھ میں گیدڑ کی طرح چھرا گھونپا جاتا ہے۔ ان کے جاسوس بھی پوشیدہ نہیں جو جاسوسی کرنے اور اپنا کام کرنے کی بجائے ادھر ادھر تنازعات کھڑا کرنے کی جڑ ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہو ںنے ایک مچھلی پورے تالاب کو گندا کرتی ہے کے مصداق ہمارے اداروں اور پھر مجموعی طور پر پورے معاشرے کو گندا کر رکھا ہے۔ کس کے الفاظ کس کے ہوتے ہیں یہ بات اندرخانہ رہ کر سب جانتے ہیں اور اگر کوئی اپنے بھی الفاظ استعمال کر رہا ہو اور اسکی ڈوریاں کون ہلاتا ہے وہ بھی سب جانتے ہیں۔ انتخابات بعض الفاظ کریدنے والوں کیلئے کاروباری موسم ہے۔ وہ سرخیاں نکالیں یا سرخیوں کے لئے مواد فراہم کریں ان کو اپنے کاروبار سے غرض ہوتی ہے۔ ملک اور قوم کا درد ان کے دل میں کہیں نظر نہیں آتا۔ وہ نظریات سے عاری وہ بے حس لوگ ہیں جنہوں نے نظریات کا لبادہ اوڑھ کر معاشرے کی سمت کو بے تعین کرنے کا ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے اور افسوس وہ لوگ اس ٹھیکیداری کے لئے بھی زر کے حصول کو یقینی بناتے ہیں۔ کون الفاظ کی بات کرتا ہے اگر الفاظ کی بات کی جائے تو یہاں سب کچھ مبہم ہے۔ کہیں کچھ واضح طور پر نظر نہیں آتا۔ تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین تو درکنار اپنے اپنے حلقوں میں انتخابی مہم چلانے والے بھی واضح بات کرنے سے قاصر ہیں۔
جھوٹ کا کوئی سرا نہیں ہوتا اور جب جھوٹے لوگ قسمیں کھا کر فریب دیتے ہیں ان لوگوں کی ایسی روش اور منفی سرگرمیوں نے معاشرے کو آج اس دھانے پر لاکھڑا کیا ہے کہ ہر کوئی اپنے انفرادی مقصد کو یقینی بنانے کے لئے مفادات کی دوڑ میں اندھا ہوا بیٹھا ہے۔ کون ہے جو اجتماعی طور پر سوچتا ہے اور جو سوچے اسے باغی کہہ دیا جاتا ہے۔ اس کی کردار کشی کی جاتی ہے۔ بند کمروں میں بیٹھ کر ایسی داستانیں اور کہانیاں گھڑی جاتی ہیں جیسے باہر پورے معاشرے کا مشاہدہ کر کے آئے ہوں۔ یہ لوگ اپنے گناہ کی ابتداءجھوٹ سے کرتے ہیں پھر فریب کا دور شروع ہوتا ہے اس کے بعد کرپشن کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے جاتے ہیں پھر عوام کے خون پسینے کو نچوڑ کر اپنے بینک بیلنس اور تجوریاں بھری جاتی ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو ہر ادارے اور معاشرے کے ہر کونے میں موجود ہیں اور ان ہی کی وجہ سے پورا معاشرہ گندگی کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ کرپشن کا ہم کیا رونا روئیں جب ہمارے کردار ہوس زر کے علاوہ کرپشن سے آلودہ ہیں۔ ہر کوئی فریب دھوکہ بازی اور جھوٹ کی ان دیکھی داستانوں کو ان کہی سے کہی بنانے میں مصروف عمل ہے۔ یہی حال سیاست کے بازار کا ہے جو اس وقت بہت گرم ہے اور اس کی گرماہٹ کو محسوس کرنے کے لئے عوام صرف تماشاگر کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ بھول چکے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا بیت رہی ہے ان سے کس کس نے روٹی کا نوالہ چھینا۔ کس نے بیروزگار کیا اور کس نے اس قدر مہنگائی کر دی کہ وہ پل پل جیتے ہوئے بھی ہر پل کو بے رحم وقت تصور کرتے رہے۔ وہ کیوں بھول رہے ہیں کہ وقت کو ان کے لئے کس نے کب اور کیونکر بے رحم بنایا۔ ہمارے معاشرے میں ایسے بھیڑیئے جو صرف داستان سرا کو جنم دے کر اپنی تسکین یقینی بناتے ہیں اور پھر اپنے بت کو بہت قدآور شخصیت ثابت کرنے کے لئے اپنی خود ہی مداسرائی کر کے اپنے ہنرمند اور قابل ہونے کے ڈھول بجاتے ہیں۔ ان لوگوں کو چاہیے کہ وہ کم از کم سچ اور جھوٹ کو اپنے لئے تو سمجھ لیں۔ اپنے آپ کے ساتھ تو سچ بولیں۔ انتخابات کا زمانہ پھر آ گیا ہے اور انتخابی میدان میں سیاسی پہلوان اور سورما اتر چکے ہیں۔ ان کا انتخاب عوام نے کرنا ہے اور عوام خود بے حس ہوئی بیٹھی ہے جو لوگ بے حسی کے دائروں سے باہر نکلنے کے خواہاں ہے وہ ووٹ ڈالنے کے لئے تیار نہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح نے برصغیر کے مسلمانوں کو 14اگست 1947ءکو ایک ملک حاصل کر کے دے دیا تھا مگر قائداعظم محمد علی جناح جنہیں قیام پاکستان کے بعد زیادہ وقت میسر نہیں آیا اور وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ان کے بعد کوئی ایسا سیاست دان اور لیڈر سامنے نہیں آ سکا جو وطن عزیز کے ان لوگوں کو ایک قوم بنا سکتے۔ کاش ان انتخابات کے موقع پر ایک قوم ابھرے اور پھر وطن عزیز سے ایسے لوگوں کا خاتمہ کیا جا سکے جو مختلف اداروں اور معاشرے میں بیٹھ کر ہر طرف اپنی سیاہ کرتوتوں سے سیاہی پھیلاتے ہیں اور ان کے ایسے ایسے بھی جاسوس موجود ہوتے ہیں جو صرف پراپیگنڈہ کرنے اور لوگوں کا دوست بن کر انہیں ڈنگ مارنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو عبرت سے دوچار کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ ان کے خلاف خاموش رہنا بھی جرم ہے۔ ایسا جرم جس کی معافی نہیں ہونی چاہیے۔