جنرل پرویز مشرف کا نام سُنتے اور پڑھتے ہی اکثر پاکستانیوں کا خون کھول اُٹھتا اور پارہ چڑھ جاتا ہے۔ جہاں مشرف سے نفرت کرنیوالوں کا شمار قطار نہیں وہیں ان سے محبت کرنے والے بھی موجود ہیں ۔ مشرف کسی زعم میں، کسی گارنٹی پر یا خود کو کمانڈو ثابت کرنے کیلئے پاکستان چلے آئے۔ ان کے ساتھ ممکنہ طور پر جو کچھ ہو سکتا ہے اس کا ان کو ادراک ضرور ہو گا۔ آج جس طرح سے وہ IN THE LINE OF FIRE ہیںشاید یہ سب انکے خدشات اور امکانات کے مطابق ہی ہو رہا ہو۔ آج کا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جس طرح عدلیہ مشرف کے حوالے سے فعال نظر آتی ہے کیا مشرف کو لٹکا دیا جائے گا؟ ”مشرف کو آرٹیکل 6،لال مسجد اپریشن، بینظیر بھٹو اور اکبر بگٹی، ایسے کیسوں میں سزا دی جائے “یہ اکثر پاکستانیوں کی خواہش ہو سکتی ہے۔ مگرفیصلے خواہشات پر نہیں، قانون کے مطابق ہوتے ہیں۔ اس ملک میں ،جس کے جنرل مشرف پونے نو سال تک خدا کے بعد مالک و مختار رہے، ان کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے، اس کا جائزہ لینے کیلئے آپ کو تھوڑی دیر کیلئے مشرف سمیت اہم کرداروں سے نفرت اور محبت کو ایک طرف رکھنا ہو گا۔ چند منٹ کےلئے، تھوڑا صبر اور تھوڑا دل پر جبر کر لیں، بلکہ اس دورانیے میں خود کو نگران وزیراعظم، وزیر اعلیٰ یا وزیر سمجھ کر غیر جانبداری کا دامن تھام لیں، صرف چند منٹ کیلئے، 11 مئی تک نہیں۔
جنرل مشرف پر غداری کے دو کیس نہیں، ایک کیس ہے۔ جنرل مشرف نے جنرل ضیاالحق کی طرح جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر آئین کو پامال کیا۔ اگر یہ جرم ہے تو دونوں کو عدالتوں اور پارلیمنٹ نے اس کی سزا کے بجائے جزا دیدی۔ مشرف پر 3 نومبر 2007ءکو ایمرجنسی کے نفاذ کی پاداش میں غداری کا الزام ہے۔ مشرف کا دونوں میں سے کونسا اقدام یا جرم زیادہ سنگین ہے 12 اکتوبر 1999ءکو ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کا۔ جس کی وجہ سے جمہوریت 9 سال کیلئے پٹڑی سے اتر گئی، شریف خاندان جلاوطن ہُوا، بہت سے لیڈر اور کارکن جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلے گئے یا پھر 3 نومبر 2007ءکی ایمرجنسی کے نفاذ کا، جس کے بعد کم و بیش60 ججوں کو گھروں میں بیٹھنے پر مجبور کر دیا گیا، جس کو نظر بندی بھی کہا جاتا ہے۔
جنرل مشرف پر عائد ہونے والے الزامات کی فہرست طویل ہے۔ جرم ثابت ہونے پر وہ بڑی سے بڑی سزا کے مستوجب ٹھہریں گے۔ اگر ان کے مقدمات میں انصاف کے تقاضے پورے نہ کئے گئے تو یہ کیس بھی بھٹو کیس کی طرح جوڈیشل مرڈر کے زمرے میں آئے گا۔ ذوالفقار بھٹو پر قتل کا الزام تھا، جس میں وہ براہ راست ملوث نہیں تھے۔ اس کیس اور بھٹو صاحب کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے جنرل ضیاالحق کی حکومت چار پاﺅں پر کھڑی تھی۔ اس کیس میں صرف ذوالفقار علی بھٹو ہی نہیں ،دیگر ملزموں کو بھی پھانسی دی گئی ۔ بینظیر اور اکبر بگٹی کو مشرف نے اپنے ہاتھوں سے قتل نہیں کیا، بینظیر بھٹو کے وارثوں کا تو مشرف پر قتل کا کلیم ہی نہ ہونے کے برابر ہے البتہ اکبر بگٹی کے لواحقین مشرف کو کسی بھی طریقے سے سزا دلانے کیلئے بے چین ہیں۔ اس قتل میں مشرف اکیلے ملوث نہیں، بلوچستان حکومت ، اپریشن کا حکم دینے اور اس میں حصہ لینے والے بھی اس میں مطلوب ہوں گے۔ لال مسجد آپریشن کی صورتحال بھی ایسی ہے۔ اس کیس میں بھی مشرف کے ساتھ فوج اور سیاستدانوں کا بھی نام آئے گا۔
3 نومبر کو ایمرجنسی کا فیصلہ مشرف نے بقول ان کے جانثار ساتھی اور ٹاپ کلاس وکیل احمد رضا قصوری کے، کابینہ، تمام وزرائے اعلیٰ، کور کمانڈرز اور ڈی جی آئی ایس آئی کی مشاورت سے کیا، ہائی ٹریزن میں یہ بھی ملوث اور مطلوب ہوں گے۔ اس وقت ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اشفاق پرویز کیانی تھے۔
مشرف آج ”اِن دی لائن آف فائر“ ہیں تو ان کی حالت رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے ہجوم میں گھرے جیب تراش کی سی ہے جسے کوئی چپت رسید کرتا ہے، کوئی مُکا لگاتا اور کوئی جوتا دکھاتا ہے ،جو ہاتھ گرم کرنے سے قاصر ہے وہ زبان چلانے پر اکتفا کرتا ہے۔ درباروں کے لنگر پر پلنے والے سپوت بھی اپنا غصہ نکال رہے ہوتے ہیں۔
آئین اور قانون کے مطابق بغاوت کا کیس صرف مرکزی حکومت درج کرا سکتی ہے۔ پانچ سال میں تو جمہوری حکومت نے ایسا نہیں کیا۔ نگران بھی کہتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں نہیں الجھیں گے۔ دوسری طرف مشرف پر غداری کا کیس چلانے میں ایک بے تابی سی نظر آتی ہے۔ ایک دو وکلا کی طرف سے درخواست دائر کی گئی جسے قابل سماعت قرار دے کر ایک بنچ تشکیل دیدیا گیا۔ سندھ ہائیکورٹ مشرف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دے چکی تھی، سپریم کورٹ میں معاملہ گیا تو مشرف کی فرار کی راہیں شدت سے مسدود کرنے کا حکم دیا گیا۔ تمام آئی جیز کو بری، بحری اور فضائی ناکہ بندی کی ہدایت کی گئی۔
مشرف اپنے اوپر لگنے والے الزامات سے بری نہیں ہو سکتے۔ ان پر کیس چلا تو بات دور تک بلکہ بہت دور تک جائے گی۔ بات جہاں تک بھی جائے انصاف ہونا چاہئے اور انصاف کے تقاضے پورے بھی۔ ایمرجنسی کے نفاذ اور لال مسجد آپریشن کا ہر کردار کو کٹہرے میں ہوگا ۔ مشرف پاکستان آئے تو ان پر کیس چلنے لگا اصولی طور پر ایسا ہی ہونا چاہئے لیکن ان کے ساتھی تو پاکستان میں تھے۔ آج سپریم کورٹ کے تمام جج حضرات مشرف کے زخم خوردہ ہیں، وہ کئی ماہ تک گھروں میں قید، تنخواہوں اور مراعات سے محروم رہے، بچے تعلیمی اداروں میں نہ جا سکے، معصوم بچوں خود ججوں اور ان کے والدین اور عزیزوں کی ڈاکٹروں تک رسائی ممکن نہ تھی۔ ایسے کرب کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جو اس سے دوچار ہو، جس نے ان کو ایسے حالات سے دوچار کیا۔ اس کے بارے میں ان کے جذبات کیا ہوں گے! اور جب مشرف ان کے سامنے ملزم کے طور پر پیش ہوں تو؟ ججوں کے ریمارکس اور جذبات سے ملزم سے نفرت کا شائبہ تک بھی محسوس نہیں ہونا چاہئے۔
قارئین! آپ اس کالم کے اختتام تک غیر جانبدار رہنے کا وعدہ کر چکے ہیں۔ بتائیے آپ کو ججوں کے رویے سے کیا محسوس ہوتا ہے؟ مشرف کو اپنے کئے کی سزا ملنی چاہئے لیکن اگر وہ سزا مشرف کے زیر عتاب رہنے والے جج حضرات پوری ایمانداری اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق بھی دیں گے تو بھی کیا اسے جوڈیشل مرڈر قرار نہیں دیا جائے گا؟
ہمارے ہاں جج جو بھی فیصلہ دیں اس پر عمل انتظامیہ نے کرانا ہوتا ہے۔ جمہوری حکومتوں کو بہت کچھ سوچنا پڑتا ہے۔ اندرونی سیاست اور بیرونی تعلقات کو پیش نظر رکھنا ہوتا ہے۔ بھٹو صاحب کا ٹرائل جمہوری دور میں ہوتا تو ان کی پھانسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہونا تھا۔ جنرل مشرف سے سب سے زیادہ اذیت میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کو پہنچی، وہ بڑا عرصہ ان کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلانے کے مطالبات کرتے رہے لیکن اب وہ خاموش ہیں۔ جانبدار یا غیر جانبدار عدلیہ اگر مشرف کو بڑی سے بڑی سزا کا مستوجب قرار دے دیتی ہے۔ اس پر عمل کا معاملہ حکومت کی صوابدید پر ہو گا۔ مشرف ایک پارٹی کے سربراہ ہیں ان کے دوستوں میں مغربی اور عرب ممالک کے سربراہان بھی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے تو پانچ سال میں کسی سیاستدان پر ہاتھ تک نہیں ڈالا، این آر او مشرف کا ان پر احسان ہے۔ پی پی پی کی دوبارہ حکومت آئی تو مشرف کو کم از کم تختہ دار تک نہیں لے جائے گی، مسلم لیگ ن والے ان دوستوں کی خواہش کے برعکس کوئی بڑا قدم نہیں اٹھائیں گے جو نواز شریف کو مشرف کے شکنجے سے نکال کر سرور پیلس لے گئے تھے۔
اگر آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا ہے تو ان پر کیس ضرور چلنے چاہئیں۔ اگر سزا ملتی ہے تو اس پر عمل ہو یا نہ ہو، اس سے یہ ضرور ہو گا کہ آئندہ کوئی طالع آزما، جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی مہم جوئی سے قبل مشرف کے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں ضرور سوچے گا۔ یہ ملک کے مفاد میں ہو گا یا نہیں؟ اس کا فیصلہ قارئین بھٹو، نواز شریف اور زرداری حکومتوں کی کارکردگی کو سامنے رکھ کر خود کر لیں۔