قائد کی زندگی کا مقصد
آل انڈیا مسلم لیگ کے ایک اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا:
”مسلمانو! میں نے دنیا میں بہت کچھ دیکھا ہے۔ دولت، شہرت اور عیش و عشرت کے بہت لطف اٹھائے۔ اب میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد و سربلند دیکھوں۔ میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی، تنظیم اور مدافعت میں اپنا فرض ادا کر دیا۔ میں آپ سے اس کی داد اور صلہ کا طلبگار نہیں ہوں۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل، میرا اپنا ایمان اور میرا اپنا ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے واقعی مدافعت اسلام کا حق ادا کر دیا۔ جناح تم مسلمانوں کی تنظیم، اتحاد اور حمایت کا فرض بجا لائے۔ میرا خدا یہ کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبہ میں اسلام کے علم کو بلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے“
(انقلاب لاہور 22 اکتوبر 1939ءص 8)
(گفتار قائداعظم: ص 233,234)
I am working for Muslims because I want that when I meet Allah hereafter death He would say "Well done Mr.Jinnah"
متحدہ ہندوستان میں مسلمان اور غیر مسلم ہزار برس سے بھی زائد ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہتے رہے۔ اس پورے عرصہ میں جب مسلمان حاکم اور غیر مسلم ہندو اکثریت محکوم تھی۔ مسلمانوں نے حکومتی و غیر حکومتی سطح پر جان بوجھ کر کبھی یہ کوشش نہیں کی کہ ہندوﺅں کو جبراً مسلمان کیا جائے یا ان کے غیر مسلم ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا ظلم اور امتیازی سلوک روا رکھا جائے یا ان کی معاشی اور کاروباری و تجارتی ترقیوں پر کوئی قدغن لگائی جائے۔ اسی طرح ہندوﺅں کے مندر، بت خانے یا عبادت خانوں کی تعمیر و ترقی اور اس کی آبادکاری پر بھی کبھی کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی اور نہ ہی ان کے مذہبی تہواروں اور خوشی کی تقریبات پر کوئی پابندی عائد کی گئی بلکہ اس کے برعکس تمام غیر مسلمین بشمول ہندو آبادی کے باصلاحیت افراد کی حوصلہ افزائی کر کے ان کو اعلیٰ مناصب تک رسائی کا موقع فراہم کیا گیا۔ ان کی دل جوئی کے لئے ان کے مذہبی تہواروں اور خوشی کے مواقع پر تحائف کا تبادلہ اور مبارکباد کے پیغامات کا التزام، ان کے موت، صدمات اور حادثات کے موقع پر تعزیت و اظہار تاسف، پڑوسی اور محلے دار ہونے کی حیثیت سے ان کے حقوق کی حفاظت، ضرورت کے وقت ان کے ساتھ تعاون وغیرہ ایسی حقیقت ہے جس کی بے شمار مثالیں تاریخ کے اوراق میں بکھری پڑی ہیں۔
لیکن جب برصغیر پر مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد انگریزوں کی حکمرانی قائم ہوئی تو انگریزوں نے مسلمانوں کے برصغیر پر”حکمرانی کے خمار“ کو ٹھکانے لگانے کےلئے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہندوﺅں کو آگے بڑھانا شروع کیا چنانچہ مسلمان اپنی کوتاہ عملی و سستی، انگریزوں کی ریشہ دوانیوں اور ہندوﺅں کی فتنہ پروری کے نتیجے میں ہر میدان اور ہر شعبہ ہائے زندگی میں مغلوب اور پیچھے ہوتے چلے گئے۔ ہندوﺅں کی تازہ تازہ ترقی کے زعم نے انہیں یہ باور کروایا کہ ہندوستان کی سرزمین پر مسلمان حاکم اور ظالم اور ہندو محکوم اور مظلوم رہے ہیں چنانچہ گزشتہ ادوار کے تمام مزعومہ مظالم کے بدلہ چکانے کا سنہری موقع ملتے ہی ہندوﺅں نے ہر سطح پر مسلمانوں سے حساب و کتاب برابر کرنا شروع کر دیا۔ چنانچہ بات بات پر مسلمانوں کی ماردھاڑ، ان کے اموال اور تجارت کی لوٹ مار، گائے کے پرستش کے نام پر گاﺅ کشی کی بالجبر ممانعت، ہندو فسادیوں کا مساجد کے سامنے نعرہ بازی کے ذریعے مسلمانوں کی عبادت میں خلل، تعلیمی اداروں میں مسلمان طلبہ کے داخلوں میں امتیازی سلوک، سول سروس اور سرکاری اداروں کی ملازمتوں میں مسلمانوں کے مقابلے میں ہندوﺅں کو ترجیح اور مذہبی، لسانی، ثقافتی تہذیبی اور سیاسی اختلافات کی خلیج کا مستقل گہرا ہوتے چلے جانا، بشمول دوسرے عوامل کے وہ اسباب تھے جن کی وجہ سے مسلمانوں اور ہندوﺅں کا سابقہ اتحاد و اتفاق یکسر پارہ پارہ ہو گیا اور دونوں فریق ایک دوسرے کے جانی دشمن بن گئے۔
مسلمان اور ہندوﺅں کے مابین سوائے جغرافیائی وحدت کے کوئی قدر مشترک نہ تھی باقی ہر معاملہ میں مسلمان اور ہندو ایک دوسرے کی ضد اور عکس تھے۔ مسلمانوں کا دین، ایمان، ثقافت، تہذیب ، تمدن، تاریخ، آداب، اخلاق، معاملات ، ہر شے ہندوﺅں سے مختلف تھی۔
-1 مسلمان توحید کو ماننے والے، ہندو بت پرست اور مشرک۔-2 مسلمان ایک اللہ کی عبادت کرنے والے، ہندو کروڑ ہا اصنام کو پوجنے والے۔-3 مسلمان سلسلہ نبوت اور ختم نبوت کو ماننے والے، ہندو اس کے منکر اور اوتاروں کو ماننے والے۔-4 مسلمان قیامت کو ماننے والے، ہندو قیامت کے اسلامی تصور کے منکر۔-5 مسلمان مرکر جی اٹھنے کے قائل، ہندو حلول کے قائل، حشر و نشر کے منکر۔-6 مسلمان قرآن کریم کو رب کا آخری، مکمل اور جامع کلام ماننے والے وہ قرآن کے منکر اور ویدوں اور گیتا کے ماننے والے۔-7 مسلمان قرآن کریم کی تلاوت کرنے اور سننے والے، ہندو سوائے برہمن کے اپنے مقدس کلام کا پڑھنا اور سننا قابل گردن زنی جرم۔-8 مسلمانوں کے محترم تہوار عیدالفطر اور عید الاضحیٰ ، ان کیلئے محترم تہوار ہولی اور دیوالی۔-9 مسلمان مردوں کو دفنانے والے، ہندو اپنے مردوں کو جلانے والے۔-10 مسلمانوں کیلئے مکة الکرمہ اور مدینة المنورہ مقدس ترین مقامات، ان کےلئے بنارس اور ایودھیا۔-11 مسلمانوں کا مقدس پانی آب زم زم،ہندوﺅں کیلئے گنگا اور جمنا کا پانی مقدس۔-12 مسلمانوں کا مقدس لباس احرام، ہندوﺅں کا اپنا جوگیانہ لباس۔-13 مسلمانوں کا عظیم الشان سالانہ اجتماع بیت اللہ میں جبکہ ہندوﺅں کا سب سے بڑا اجتماع گنگا میں۔ -14 مسلمانوں کی قومی زبان اردو، ہندوﺅں کی ہندی۔-15 مسلمانوںکا لباس شلوار قمیض جبکہ ہندو دھوتی، بنیان اور خواتین کےلئے ساڑھی جیسا بے ہودہ لباس مروج۔-16 مسلمانوں میں حلال و حرام کا تصور انکے یہاں انکے اپنے تصورات۔-17 مسلمانوں کیلئے شراب حرام ہندوﺅں کیلئے اسکی حیثیت ”دارو“ کی ۔-18 مسلمانوں رقص و سرود کو خرافات اور لایعنی کام سمجھتے ہیں جبکہ ہندوﺅں میں ناچ گانا عبادت ہے۔ -19 مسلمانوں کے یہاں عزت کا معیار ”تقویٰ“ ہندوﺅں میں عزت کا معیار خاندان اور برادریاں۔-20 مسلمان ذات پات کے سخت مخالف ہندوﺅں کا تعارف ذات پات کی بنیاد پر۔-21 مسلمان کثرت ازواج کے قائل، ہندو اس کے شدید مخالف۔-22 مسلمان بیٹی کو رحمت، ہندو اس کوزحمت سمجھتا ہے۔ -23 مسلمان کا اپنا نظام طہارت و پاکیزگی، ہندو اس سے کلیتاً نابلد۔-24 مسلمان شریعت کو تمام دوسرے قوانین سے بالا اور اعلیٰ سمجھنے والے ہندو شریعت کے نام سے بھی ناواقف۔-25 مسلمانوں کے اپنے علماءو مشائخ،ہندوﺅں کے اپنے جوگی اور پنڈت۔ (جاری)