دورِ جدید کی ایک مستند مورخہ بار براٹچمین کی یہ بات ایک ضرب المثل کی حیثیت حاصل کرچکی ہے کہ سیاستدانوں اور حکمرانوں کیلئے تاریخ سب سے بڑی درسگاہ کا کام انجام دیتی ہے۔ دنیا میں جتنی بھی بڑی تاریخ ساز یا انقلاب آفرین شخصیات پیدا ہوئیں اُن میں قدر مشترک یہ تھی کہ تاریخ کا مطالعہ اُن کا جنون تھا۔ ہٹلر کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ویانا کے سٹیشن کی لائٹس کی روشنی میں جرمنی کی تاریخ پڑھا کرتا تھا۔ اور نیپولین بونا پارٹ کے ساتھ یہ بات منسوب ہے کہ وہ تاریخ کے مطالعے کو اپنی عسکری تربیت کا بنیادی حصہ سمجھا کرتا تھا۔
سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ بار براٹچمین نے تاریخ کو حکمرانوں ¾ سیاستدانوں اور فاتحین کی درسگاہ کن معنوں میں قراردیا۔اپنی شہرہِ آفاق تصنیف ” دی مارچ آف فولی (The March of Folly)یعنی ” نادانی کا سفر “ میں بار برا لکھتی ہیں ۔
” تاریخ کا مطالعہ آدمی کو سکھاتا ہے کہ بڑے کارناموں کے پیچھے کس قسم کی دانش یا حکمت کا رفرما ہوتی ہے ¾ اور بڑی ناکامیوں کا جنم کیسی بے عقلی یا نادانی کی کوکھ سے ہوتا ہے“۔ساتھ ہی بار برا یہ بھی لکھتی ہیں۔
” تاریخ بہت کچھ سکھاتی ہے مگر المیے اور ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ تاریخ سے نہ سیکھنے والوں کی تعداد تاریخ سے سیکھنے والوں کی تعداد سے ہمیشہ زیادہ ہوتی ہے ۔ تاریخ کا ایک بڑا سبق یہ بھی ہے کہ جن حکمرانوں یا فاتحین کو بڑی بڑی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا اُنکے سامنے راست اقدام اور دانشمندانہ فیصلے کا راستہ بھی ہوتا تھا جسے نظر انداز کرکے وہ نادانی کا سفر اختیار کرلیتے تھے۔“ باربراٹچمین اس ضمن میں ” ٹروجن ہارس “ یعنی ٹرائے کے گھوڑے کا ذکر بطور خاص کرتی ہیں۔جب یونانیوں کو یقین ہوچلا کہ وہ روایتی جنگ سے ٹرائے والوں کو زیر نہیں کرسکتے اور ٹرائے کے دارالحکومت اِلیئم کی فصیلوں کو مسّخر کرنا انکے بس سے باہر ہے تو انہوں نے مکاری کا راستہ اختیار کیا۔ ایک بہت بڑی قدو قامت کا گھوڑا جنگل کی لکڑی کاٹ کاٹ کر بنایا گیا۔ ٹروجن ¾ قلعے کے اندر سے یہ تماشہ دیکھتے رہے۔ پھر ایک روز آیا کہ بیدار ہو نے پر ٹرائے والوں نے دیکھا کہ یونانی الیئم کا محاصرہ ختم کرکے جاچکے ہیں۔ پسپا ہوتے وہ لکڑی کا گھوڑا پیچھے چھوڑ گئے تھے۔ جسے ٹروجنوں نے اپنی جیت کی ٹرافی سمجھا۔ چنانچہ وہ اسے گھسیٹ کر شہر کے اندر لے آئے۔ رات کو جب ٹروجن اپنی عظیم فتح کا جشن منارہے تھے تو گھوڑے کے پیٹ سے پچاس یونانی سپاہی اترے اور انہوں نے قلعے کے دروازے کھول دیئے۔ یونانی پسپا نہیں ہوئے تھے۔ وہ یوُلیسس کے بنائے ہوئے گھوڑے کی کرشمہ سازی کا انتظار کررہے تھے۔ قلعے کے دروازوں کے کھلتے ہی یونانی نہتے اور مدہوش ٹروجنوں پر ٹوٹ پڑے۔ باربرا لکھتی ہیں کہ نادان ٹروجنوں کے ذہن میں ایک بار بھی یہ خیال نہ آیا کہ یونانیوں نے گھوڑا کیوں بنایا تھا اور وہ اسے پیچھے کیوں چھوڑ گئے تھے۔ چنانچہ انہیں اپنی نادانی کی بڑی ہی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔آج بھی اگر کسی قوم یا معاشرے کی صفوں میں کوئی غدار یا دشمن کا ایجنٹ موجود ہو تو اسے ” ٹروجن ہارس آف ٹریچری“ (The Trojan Horse of Treachery)کا نام دیا جاتا ہے۔
دشمن جومقصدبراہ راست مقابلے یا جنگ کے ذریعے حاصل نہیں کرپاتے وہ عیاری اور مکاری کے ذریعے حاصل کرلیا کرتے ہیں۔ ہمارے لئے تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ ہمیں بڑی ناکامیوں اور بڑی شکستوں کا سامنا زیادہ تر اپنی صفوں میں موجود ” عیاری کے کسی گھوڑے “ کی وجہ سے کرنا پڑا۔ عرف عام میں ” عیاری “ کے ایسے ہر گھوڑے کو ” غدار “ کا نام دیتے ہیں۔اور بات جب بھی غداری یا غداروں کی ہوتی ہے تو ” جعفرازبنگال “ اور ” صادق از دکن “ کے نام ذہن میں ابھرے بغیر نہیں رہتے۔ جو بات اس ضمن میں بے پناہ اہمیت کی حامل ہے اور جس پر بہت کم غور کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا یہ غلطی بنیادی طور پر سراج الدولہ کی نہیں تھی کہ اس نے میر جعفر کو اپنادست راست بنایا اور اس کی وفاداری پر اعتماد کیا۔؟ اِسی طرح کیا یہ غلطی سلطان فتح علی ٹیپو کی نہیں تھی کہ اس نے میر صادق کے بارے میں وہ ” جوہر“ استعمال نہ کیا جو کامیاب عاقلوں اور حکمت سازوں کی بنیادی پہچان ہوتا ہے یعنی مردم شناسی۔؟تاریخ ایک سبق یہ بھی دیتی ہے کہ اگر پلاسی اور میسور کی داستانوں کو دہرانا مقصود نہیں تو اپنی صفوں کی چھان بیان کرنے میں ذرا بھی کسر نہیں چھوڑنی چاہئے۔اِسی سبق کے ساتھ تاریخ ایک سبق یہ بھی دیتی ہے کہ جن لوگوں کو سبق سیکھنے کی اشد ضرورت ہوتی ہے وہ اکثر غفلت لاپرواہی یا ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہوجایا کرتے ہیں۔ ہمارے حکمران تاریخ کے اس ستم ظریف سبق کا منہ بولتا شاہکار کہلا سکتے ہیں۔ اس موضوع پر قلم اٹھانے کی ضرورت مجھے آج یوں پیش آئی ہے کہ قومی سیاست کی سٹیج پر ایک ” مکالمہ بازی “ سی شروع ہوچکی ہے ۔ اس مکالمہ بازی کو مناظرہ کہنا بھی نادرست نہیں ہوگا۔ بظاہر یوں لگتا ہے کہ ملک کے دو نہایت اہم ادارے نادانستہ طور پر تصادم کے راستے پر چل نکلے ہیں۔
یہ معاملہ کس حد تک جنرل )ر(پرویز مشرف کے خلاف کی جانے والی حکومتی کارروائیوں سے تعلق رکھتا ہے ¾ کس حد تک اس کا تعلق طالبان کے ساتھ جاری مذاکراتی عمل سے اور کس حد تک اسکے تانے بانے میاں نوازشریف کے اُس جذبہ ءخیر سگالی سے ہے جو وہ بھارت کیلئے محسوس کرتے ہیں اور جسے وہ ایسی پالیسیوں کی بنیاد بنانا چاہتے ہیں جن کے اثرات سے مسئلہ کشمیر محفوظ نہیں رہ پائے گا۔ اس کا تجزیہ کرنا یہاں میرا مقصد نہیں۔ یہاں میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے اُس بیان کے مضمرات کوسامنے رکھنا چاہتا ہوں جس میں پاکستان آرمی کیخلاف چلائی جانیوالی پروپیگنڈہ مہم پر فوجی جوانوں اور افسروں میں پائے جانیوالے شدید غم وغصہ کا کھل کر اظہار کیا گیا ہے۔
” ہم اپنے ادارے کے وقار کا تحفظ ہر حال میں کرینگے۔“ یہ بظاہر بڑے سادہ سے الفاظ ہیں جو جنرل راحیل شریف نے ادا کئے ہیں۔ مگر جب ایسا کم گو اور پیشہ ور سپاہی ایسی معنی خیز بات کہنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے تو سمجھ لیا جانا چاہئے کہ معاملہ سنجیدہ توجہ کا مستحق ہے۔ کچھ عرصے سے جنرل )ر (پرویز مشرف کو آگے رکھ کر ہمارے بعض سیاست دان اورتجزیہ کار پاک فوج اور اسکے جنرلز کا ذکر جس تضحیک آمیز انداز میں کررہے ہیں اس پر ایسے تمام حلقوں میں بجا طور پر تشویش پائی جاتی ہے جو ملک میں کسی نئے طوفان کو اٹھنے سے روکنے کے متمنی ہیں۔جنرل راحیل شریف نے جو کچھ کہا اور جس لب ولہجے میں کہا اس کیلئے اُنکے پاس یقینا بڑی ٹھوس وجوہات موجود ہوں گی۔ خواجہ سعد رفیق اور خواجہ آصف جس ”قلندرانہ “ انداز میں جنرلز کو للکارتے رہتے ہیں اس پر کچھ ” جمہوریت نواز “ حلقے تو یقینا شاداں ہوتے ہوں گے لیکن اس پر ان لوگوں کو بجا طور پر شدید تشویش ہے جنہیں جولائی اگست ستمبر اور اکتوبر1999ءکے مہینے یاد ہیں او ر جو جانتے ہیں کہ بعض اوقات چائے کی پیالی میں آنے والا طوفان سچ مچ ایک حقیقی طوفان کا روپ دھار لیا کرتا ہے۔
میرا خیال تھا کہ جنرل راحیل شریف کے بیان کے بعد حکمران حلقے Damage controlیعنی ” ازالہءنقصان “ کی ضرورت کسی نہ کسی حد تک ضرور محسوس کرینگے لیکن خواجہ آصف نے اِس بیان کو اپنی جمہوری شناخت کیلئے ایک چیلنج اور اپنی آتش نوائی کیلئے ایک للکار سمجھا۔ انہوں نے فرمایا ۔ ” ہر ادارے کو اپنے وقار کے تحفظ کا حق حاصل ہے ۔ اور مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ وقار پارلیمنٹ کا سب سے بالاتر ہے ۔ “ کاش کہ ایسا ہوتا !کوئی بھی ادارہ اپنے اجزائے ترکیب سے بڑا نہیںہوا کرتا۔ جس قسم کے لوگ پارلیمنٹ میں پہنچا کرتے ہیں اور جس طریقے اور راستے سے پہنچتے ہیں اسے سامنے رکھا جائے تو عوام کیلئے بے حد مشکل ہوگا کہ وہ پارلیمنٹ کے وقار کے تحفظ کیلئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے ہوجائیں۔جیت ہمیشہ طاقت کی ہوا کرتی ہے۔ اور فوج کی طاقت کا سرچشمہ صرف بندوق نہیں ¾ وہ جذبہ بھی ہے جس کی شدت اسکے جوانوں کو ہر لمحہ اپنی جان وطن پر نچھاور کرنے کےلئے آمادہ رکھتی ہے۔اگر ہمارے سیاست دانوں کو اپنا اور اپنے ملک کا مفاد عزیز ہے تو وہ اس خام خیالی سے نکل آئیں کہ ریت کے گھروندے کو ناقابلِ تسخیر قلعہ بنایا جاسکتا ہے !