دنیا بھر میں انسان بحیثیت انسان کے پریشان کن حالات سے دوچار ہے، پوری دنیا میں نہ کسی کی جان محفوظ ہے نہ مال، عزت و آبرو سمیت ہر چیز دائو پر لگی ہوئی ہے اور انسان اپنے مسائل کیلئے اپنے خالق کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے ہی جیسے انسانوں کے بنائے ہوئے ناقص نظام ہائے حیات کے جال سے نہیں نکل رہا۔ اسلام کے نام پر حاصل کردہ ہمارا وطن عزیز بھی اس وقت جن مسائل و مصائب میں مبتلا ہے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، سیاسی و معاشی عدم استحکام، خاندانی اور کاروباری پریشانیاں، سماجی حالات میں آئے روز خوفناک قسم کی تبدیلیاں اور انسان کے ذاتی حالات اور اس کی پریشانیاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ ماں اپنی ممتا کے جذبے کو سلا کر اپنی ہی کوکھ سے جنم لینے والے بچوں کو مار رہی ہے، باپ اپنے بچوں کی دودھ نہ لے کر دے سکنے کو ایک جرم سمجھتے ہوئے ان کو بھی اور خود کو بھی موت کی وادی دھکیل رہا ہے، زندگی جیسی قیمتی نعمت اتنی ارزاں ہو چکی ہے کہ جب جس وقت اور جس کا جی چاہتا ہے وہ اپنی یا کسی بھی دوسرے کی جان لینے کو تیار بیٹھا ہے۔ ان حالات میں ذمہ داری تو تھی حاکم وقت کی کہ وہ اپنی رعایا کی زندگیوں میں سکون مہیا کرنے کی کوششیں کرتا مگر یہاں بھی بدقسمتی آڑے آئی کہ وہ حکومتی منصب جو ذمہ داری سے کندھوں کو جھکا دے اور راتوں کی نیند اُڑا دے وہ باعث فخر سمجھا جانے لگا اور اس اقتدار کے حصول کیلئے جانیں لی اور دی جانیں لگیں۔ جب لیلائے اقتدار سے بزور معانقہ کیا جائیگا تو کہاں کی ذمہ داری اور کہاں کا احساس، حاکم وقت کے بعد یہ ذمہ داری والدین اور اساتذہ پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی نوجوان نسل کو زندگی کی مشکلات میں صبر کی تلقین کریں اور معاشی تنگدستی کی بنا پر موت کو گلے لگانے کے کلچر کو مسترد کرتے، یا علماء وقت اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے اور اپنی تقاریر میں، خطبات جمعہ میں یا دروس کی محفلوں میں قومی و ذاتی مسائل کا تجزیہ اس انداز میں کرتے کہ یہ مسائل اتنے بڑے نہ لگتے کہ قوم اجتماعی خودکشی کے راستے پر نکل پڑتی بلکہ حکمت و دانائی سے انہیں راستہ بتایا جاتا اور صبر کی عزیمت سے آشنا کروایا جاتا۔
ان حالات میں مرکزی جمعیت اہلحدیث پنجاب کے قائدین مولانا محمد نعیم بٹ، پروفیسر حافظ عبدالستار حامد، مولانا میاں محمود عباس اور دیگر نے امیر مرکزیہ علامہ پروفیسر ساجد میر اور ناظم اعلیٰ ڈاکٹر حافظ عبدالکریم کی رہنمائی میں’’تحریک بیداریٔ ملت‘‘ کا آغاز کیا اور اس تحریک کے ذریعے ملت کو اپنے مسائل کے حل کیلئے اصل ماخذ کی طرف رجوع کرنے کا درس دیا۔ دنیا کو یہ باور کروایا کہ ہماری بقا اور استحکام صرف اور صرف اللہ کے دئیے ہوئے نظام سے منسلک ہے، اس نظام کو چھوڑا تو نہ دنیا میں عزت ملے گی اور نہ آخرت کی کامیابی کا تصور کیا جا سکتا۔ پاکستان ہمارے وطن عزیز کی مثال ’’دارِ ارقم‘‘ کی بھی ہے (کہ یہاں دنیا بھر کے ظالموں کے ظلم وستم کو سہنے والے ڈرے سہمے مسلمان پناہ کیلئے آتے ہیں) اور یہی ملک دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے مثل مدینہ بھی ہے (کہ خالص نظریہ اسلام کے نام پر بنا اور دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کی جائے امن بھی ہے) حضرت قائداعظم محمد علی جناح نے بھی اسے اسلام کی تجربہ گاہ ہی بنانے کامنصوبہ بنایا تھا، اسی وطن عزیز کے باسیوں کو یہ سبق دینے کیلئے پاکستان اور اسلام لازم و ملزوم ہیں، استحکام اور بقا اسلام سے وابستہ ہے، مشکلات سے نجات دامن اسلام میں پناہ لینے سے ہی ملے گی، بحرانوں سے نکلنے کا واحد راستہ اسلام ہے۔ آج دنیا بھر کا کفر صلیبی و صیہونی قوتوں کے آلہ کار اس ملک کی سلامتی کے درپے ہیں، ان عناصر کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں قرآنی حکم اور اسوۂ نبویؐ کے مطابق اپنی صفوں میں اتحاد و یگانگت پیدا کرنا ہوگی اور تحریک بیداریٔ ملت کے مقاصد بھی یہی ہیں، انہیں مقاصد کے حصول کیلئے ساہیوال، سرگودھا، بہاولنگر اور دیگر شہروں کے بعد اب یہ قافلہ گوجرانوالہ میں اترا ہے اور گوجرانوالہ کی جماعت کے مقامی قائدین مولانا محمد صادق عتیق، پروفیسر سعید کلیروی، حافظ عمران عریف،مولانا محمد حنیف ربانی اور ان کے ضلعی رفقاء نے اس قافلے کو زبردست انداز میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں ویلکم کرنے کا اعلان کیا ہے، 10 اپریل (جمعرات) کی رات کو منی سٹیڈیم میں شہریان گوجرانوالہ کا عظیم جلسہ اس بات کا عزم ہے کہ ہم اس ملک میں قرآن و سنت کے نفاذ کا ہراول دستہ بنیں گے۔ (نوٹ: مضمون نگار جمعیت اہل حدیث (ساجد میر گروپ) کے ترجمان ہیں۔