26مارچ کو یونیورسٹی آف سرگودھا کے سنڈیکیٹ اجلاس سے قبل ہی تین ممبراراکین اسمبلی نے ہلڑ بازی شروع کر دی اور وی سی آفس کے کمیٹی روم کو مچھلی منڈی بنا دیا اس روز جناب وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمدا کرم چوہدری دفتری مصروفیت کے سلسلہ میں لاہور تھے جبکہ ان کی جگہ پرو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ظہوالحسن ڈوگر نے اجلاس کی صدارت کرنا تھی مذکورہ تین اراکین صوبائی اسمبلی نے نجانے کیا سوچ کر ڈاکٹر ظہور الحسن ڈوگر کی تضحیک کرنا شروع کر دی اور اس موقع پر اراکین اسمبلی نے سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دیں ۔اس معاملہ کے بعد اگلے روز یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبہ کا ردعمل فطری تھا ہاکی گرائونڈ میں احتجاجی کیمپ منعقد ہوا جبکہ اتنے بڑے ناخوشگوار وقعہ کے باوجود جامعہ سرگودھا کی رویات کو مدنظر رکھتے ہوئے تدریسی عمل کو تعطل کا شکار نہیں کیا گیا احتجاجی کیمپ میں مقررین نے اراکین اسمبلی کے طرز تکلم اور ہتک آمیز رویہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور وزیاعظم میاں محمد نواز شریف سے مطالبہ کیا کہ مذکورہ تینوں اراکین صوبائی اسمبلی کی رکنیت نہ صرف منسوخ کی جائے بلکہ انکے خلاف انضباطی کاروائی بھی عمل میں لائی جائے سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی اس پر متحرک ہو گئی ہے سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی اور دیگر طلبہ وطالبات پیٹشنزکے ذریعے وزیراعلیٰ ینجاب کو باور کرار رہے ہیں کہ وہ یونیورسٹی میں سیاست سے پاک ماحول چاہتے ہیں جس کا اعادہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف خود کئی بار کر چکے ہیں جب وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف یونیورسٹی میں لیپ ٹاپ تقسیم کرنے پہنچے تھے تو ببانگ دہل انہوں نے کہا کہ تھا کہ مجھے ڈاکٹر اکرم چوہدری کے باے میں اول فول بتایا گیا مگر جب تحقیقات ہوئیں تو پتہ چلا کہ ڈاکٹر اکرم چوہدری نیک سیرت اور فرشتہ سیرت انسان ہیں ایک بار پھر گردش دوراں لئے اس لمحے کی دستک دے رہا ہے جب مذکورہ اراکین اسمبلی ایک بار پھرالزامات عائد کررہے ہیں اور الزامات لگانے والے بھی وہی سیاسی ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ معاملہ نزاکت کو سمجھتے ہوئے آگ کو مزید بھڑکانے کی بجائے اسے سمیٹنا چاہیے اور مگر استاد کی توہین کرنے والوں کو ہرگز پروٹوکول نہیں دینا چاہیے ان کی حوصلہ افزائی نہیں ہونی چاہیے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ وائس چانسلر ڈاکٹر اکرم چوہدری نے سرگودھا جیسے دیہاتی شہر میں یونیورسٹی کی ترقی اور فروغ تعلیم کیلئے جو کردار ادا کیا وہ ناقابلِ فراموش ہے نومبر2002میں بننے والی یونیورسٹی آف سرگودھا آج صوبہ بھر کی دوسری بڑی جامعہ شمار ہوتی ہے یونیورسٹی آف سرگودھا تحقیق میں ملک کی ساتویں بڑی یونیورسٹی کا اعزاز بھی حاصل کر چکی ہے۔ چیف جسٹس جناب جسٹس تصدق جیلانی اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ عمر عطا بندیال اس واقعہ کا فوری طور پراز خود نوٹس لیں اور اساتذہ کی تکریم اور کھوئے ہوئے تقدس کو فوری طور بحال کرائیں۔