لاہور (معین اظہر سے ) ڈی جی رینجرز پنجاب نے سوئی گیس کی پائپ لائن سے رینجرز کو ہٹا کر ریلوے ٹریک کی حفاظت کے لئے تعینات کرنے سے معذوری کا اظہار کر دیا، آئی جی ریلوے نے کہا ہے کہ پنجاب میں ریلوے کے 60 حساس مقامات ہیں جس میں سے 43 مقامات پر پنجاب پولیس کا کوئی اہلکار تعینات نہیں جبکہ وزیر ریلوے نے کہا ہے کہ جئے سندھ محاذ، جئے سندھ متحدہ محاذ، بی ایل اے، اور بی آر اے نے اتحاد کرتے ہوئے جنوبی پنجاب کو دہشت گردی کی کارروائیوں کے لئے ٹارگٹ کر لیا ہے جس میں ٹرینوں پر حملے اور ٹریک کو تباہ کرنے کی کوششیں کی جاسکتی ہیں جس پر وزیر اعلی پنجاب نے ہوم سیکرٹری پنجاب کی سربراہی میں کمیٹی قائم کر دی ہے۔ وزیر اعلی پنجاب کے چین جانے سے ایک روز قبل ماڈل ٹاؤن میں ان کی زیر صدارت ریلوے ٹریک، ریلوے تنصیبات، اہم جگہوں کی حفاظت کے لئے اجلاس ہوا تھا جس میں خواجہ سعد رفیق، نوید اکرم چیمہ چیف سیکرٹری پنجاب، خان بیگ آئی جی پنجاب، سید ابن حسین آئی جی ریلوے، اعظم سلیمان خان ہوم سیکرٹری پنجاب، میجر جنرل طاہر خان ڈی جی رینجرز پنجاب، سید خورشید عالم ڈی جی آئی بی پنجاب، محمد ایملش ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ، آئی ایس ائی اور ایم آئی کے نمائندوں نے شرکت کی۔ آئی جی ریلوے نے کہا کہ کوٹ ادو، سے کشمور، جو ڈی جی خان اور راجن پور سے لنک ہے ۔ اسی طرح خان پور سے صادق آباد جو رحیم یار خان سے لنک ہے پر دہشت گرد حملہ کر سکتے ہیں جس کو حساس ترین قرار دے دیا گیا ہے۔ آئی جی ریلوے نے کہا ہے کہ فراریوں نے جنوبی پنجاب میں اپنے ٹھکانے بنا لئے ہیں تاہم وہ ریلوے ٹریک کے ساتھ کچی آبادیاں بنا رہے ہیں اسلئے پنجاب حکومت جنوبی پنجاب میں ریلوے ٹریک کے ساتھ تمام کچی آبادیوں کو ختم کرے۔ جس پر پنجاب پولیس نے الزام لگایا کہ ریلوے کی تنصیبات پر جو پولیس تعینات کی جاتی ہے ان کے کرائے کی رقم ادا نہیں کی جاتی ہے جس پر وزیر ریلوے نے کہا کہ ہر ریلوے کے ڈویژنل سپرٹنڈنٹ کو 80لاکھ روپے فراہم کر دئیے گئے ہیں تاکہ وہ تعینات پولیس کا کرایہ ادا کرسکیں۔ وزیر اعلی نے ڈی جی رینجرز کو کہا کہ وہ سوئی گیس سے رینجرز کو کم کرکے ریلوے ٹریک کی حفاظت کے لئے لگا دیں جس پر ڈی جی رینجرز نے کہا کہ ہر 500میٹر کے فاصلے پر سوئی گیس پائپ لائن کے ساتھ رینجرز تعینات ہیں اسلئے وہ گیس پائپ لائن سے رینجرز کو ہٹا کر ریلوے ٹریک کی حفاظت پر نہیں لگا سکتے ہیں۔ کمیٹی میں پولیس، آئی بی، آئی ایس آئی، ایم آئی، سی ٹی ڈی اور ریلوے کے نمائندے شامل ہیں جو پندرہ روز میں اپنی سفارشات کو فائنل کر ے گی۔