لاہور (سیف اللہ سپرا) بلوچستان کے سابق نگران وزیراعلیٰ نواب ڈاکٹر غوث بخش باروزئی نے کہا ہے کہ بلوچستان کے حالات خراب ضرور ہیں مگر اتنے بھی خراب نہیں جتنے بتائے جاتے ہیں۔ جب میں نگران وزیراعلیٰ بنا تو مجھے سوال کیا گیا کہ بلوچستان کے حالات تو بہت خراب ہیں آپ کیسے الیکشن کرائیں گے، میرا سادہ سا جواب تھا کہ اگر آپ نیک نیتی سے کوئی کام کرنا چاہیں تو کوئی کام مشکل نہیں ہوتا، بس نیک نیتی شرط ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے نمائندہ نوائے وقت کے ساتھ خصوصی گفتگو میں کیا۔ قبل ازیں انہوں نے ایڈیٹر انچیف نوائے وقت گروپ ڈاکٹر مجید نظامی سے ملاقات کی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں احساس محرومی تو ہے کیونکہ جب محرومی ہو گی تو احساس محرومی بھی ہو گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ بلوچستان کی محرومی کا اصل ذمہ دار بلوچستان کا حکمران اور بااختیار طبقہ ہے۔ اگر یہ طبقہ چاہتا تو بلوچستان کے لوگوں کو سوئی گیس، سڑکوں سمیت تمام سہولتیں مل سکتی تھیں۔ حکمران طبقے کی ترجیح عوام نہیں بلکہ ذاتی مفادات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال کراچی، پشاور اور ملک کے دیگر شہروں سے زیادہ خراب نہیں۔ پورے ملک کے حالات خراب ہیں کیونکہ ملک بھر میں کرائم کی فرنچائز کھلی ہوئی ہیں اور کرائم اب کارپوریٹ بن گیا ہے۔ امن و امان گڈگورننس سے ہو گا اور گورننس کا ’’گڈ‘‘ انگریزی والا ہو پشتو والا نہ ہو کیونکہ پشتو میں ’’گڈ‘‘ لنگڑے لولے کو کہتے ہیں۔ گڈگورننس کے علاوہ میرٹ ہونا چاہئے۔ میرٹ ہو گا تو بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ حکومت اور فوج میں ممکنہ اختلافات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ملک کے قیام کو 67 برس ہو گئے مگر سیاستدانوں میں ابھی تک بلوغت نہیں آئی۔ فوج کو حکومت میں لانے والے سیاستدان ہی ہوتے ہیں۔ اب نان ایشو کو ایشو بنا کر حالات خراب کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جب سے موجودہ حکومت بنی ہے کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوا، مخلوط حکومت اختیارات اور مفادات کیلئے آپس میں الجھی ہوئی ہے۔