موسٹ وَیلکم جناب سِراج اُلحق!

جماعتِ اسلامی کے نومنتخب امیر جناب سِراج اُلحق نے امارت کا حلف اُٹھا لِیا ہے اور اعلان کِیا ہے کہ ’’اگر مَیں قُرآن و سُنت کے مطابق چلوں تو ارکانِ جماعتِ اسلامی میرا ساتھ دیں اور اگر دستوُر کے راستے سے ہٹُوں تو وہ مجھے پکڑ کر سِیدھا کر دیں۔‘‘ لیکن جنابِ سِراج اُلحق کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہو گا جیسا کہ کسی شاعر نے کہا تھا کہ  ؎
’’مُدّت سے آرزو تھی کہ سِیدھا کرے کوئی!‘‘
امیرِ جماعت کی ’’پکڑ کر سِیدھا کرنے سے مراد یقیناً یہ ہو گی کہ جماعت کے ارکان انہیں ہاتھ سے پکڑ کر قُرآن و سُنت کے راستے پر چلا دیں‘‘ ۔’’سِراج اُلحق‘‘ بہت خوبصورت نام ہے۔ ’’سِراج‘‘ چراغ یا سُورج کو کہتے ہیں اور حق کا چراغ یا سُورج بھلا دستوُر کے راستے سے کیوں ہٹے گا؟ وہ تو اپنے نام کی مناسبت سے  دوسروں کو سِیدھے راستے پر چلائے گا۔ صِرف ایک ہی بار ہُوا تھا کہ جب بظاہر حق کے چراغ یا سُورج منصور حلّاجؒ نے خُود کو ’’انااُلحق‘‘ کہا یعنی ’’مَیں حق ہُوں‘‘ اور اُسے سُولی پر چڑھا دِیا گیا تھا۔ ’’انااُلحق‘‘ کہنے والے کے خلاف فتویٰ یہ دِیا گیا تھا کہ اُس نے تو یہ کہا ہے کہ ’’میں خُدا ہُوں۔‘‘
’’سِراج اُلحق صاحب جماعتِ اسلامی کے پہلے امیر ہیں کہ جِن کے نام سے پہلے مولاناؔ، میاںؔ،  قاضیؔ یا سیّدؔ قِسم کا کوئی بھی لاحقّہ نہیں ہے۔ ایم کیو ایم کے قائد جناب الطاف حسین کی طرح جناب سِراج اُلحق میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد اور سیّد منّور حسن کی طرح کالج اور یونیورسٹی کے فارغ اُلتحصِیل ہیں۔ کسی دِینی مدرسے کے نہیں۔ دِینی مدرسے کے فارغ اُلتحصِیل تو مولانا مودودی بھی نہیں تھے۔ اِسی لئے جمعیت عُلمائے ہند اور اُن کے بعد جمعیت عُلمأ اسلام کے دونوں گروپ اُنہیں ’’مولانا‘‘ تسلیم نہیں کرتے تھے۔ پاکستان میں عُلماء کی جتنی بھی سیاسی جماعتیں ہیں غیر عُلماء اُن کے عہدے دار نہیں بن سکتے۔ جماعتِ اسلامی کی رُکنیت بھی بڑی چھان پھٹک کے بعد ہی دی  جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعتِ اسلامی کے قیام کے 73 سال بعد بھی  اُس کے ارکان کی تعداد 30 ساڑھے 30  ہزار ہی ہے۔ کِتنا ہی ’’پھنّے خان‘‘ سیاستدان کِیوں نہ ہو، اپنے ’’لاکھوں ساتھیوں سِمیت‘‘۔جماعتِ اسلامی میں شامل نہیں ہو سکتا۔ سِراج اُلحق صاحب کے امیر منتخب ہُونے کے بعد تو اِس قِسم کی شمولیت کا ایک فی صد بھی چانس نہیں رہا۔ جناب سِراج اُلحق کو جماعتِ اسلامی کے دستوُر کے مطابق اب پنجاب (لاہور) میں رہنا پڑے گا۔ وہ یہ دعویٰ بھی کر سکتے ہیں کہ  ؎
’’مَیں خُود آیا نہیں، لایا گیا ہُوں‘‘
سِراج اُلحق اُردو بہت اچھی بولتے ہیں۔ پنجاب میں رہیں گے تو انہیں پنجابی بولنا بھی آ جائے گی۔ جناب لیاقت بلوچ کی طرح خان عبدالولی خان بھی بہت اچھی اُردوبولتے تھے اور بیگم نسیم ولی خان بھی۔ بیگم صاحبہ نے 1977ء میں وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد  کی تحریک کے دوران یہ بھی کہا تھا کہ ’’خان عبدالولی خان اُردو غزل بہت اچھی گاتے ہیں۔‘‘ جماعتِ اسلامی کے کسی بھی لیڈر/ کارکن نے اپنے امیر کی غزل سرائی کا تذکرہ نہیں کِیا حالانکہ دہلوی سیّد منور حسن پر شُبہ کِیا جا سکتا تھا۔ میاں طفیل محمد (جالندھیری) اُردو پنجابی لہجے میں بولتے تھے لیکن اپنی مادری زبان پنجابی کے بارے میں کُچھ اچھی رائے نہیں رکھتے تھے۔
آج سے 22 سال پہلے 20 اپریل1992ء کو میاں طفیل محمد (مرحوم) کا ایک بیان قومی اخبارات میں شائع ہُوا تھا جِس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’پنجابی زبان کا کوئی مُستقبل ہونا ہی نہیں چاہیے۔ پنجابی زبان تو ’’گالیوں کی زبان‘‘ ہے۔ اِس میں کوئی جتنی بڑی گالی دے اتنا ہی بڑا ادیب ہے۔‘‘ اِس پر 23 اپریل 1992ء کو ’’نوائے وقت‘‘ میں میرا کالم ’’پنجابی گالیوں کی زبان‘‘ شائع ہُوا۔ مَیں نے لکِھا کہ ’’انسان اشرف المخلوقات ہے اِس لئے انسان جو بھی زبان بولے  وہ اپنی جگہ اشرف ہے۔ مولانا مودودی نے کبھی پنجابی زبان کو ’’گالیوں کی زبان‘‘ قرار نہیں دِیا حالانکہ وہ پنجابی نہیں تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ میاں طفیل محمد نے اولیائے کرام اور صُوفیائے عُظاّم کا (پنجابی) کلام نہیں پڑھا۔ قاضی حسین احمد پختون تھے انہوں نے کبھی پنجابی زبان کو’’گالیوں کی زبان‘‘ نہیں کہا تو بھلا جماعت کے دوسرے پختون امیر  سِراج اُلحق صاحب ایسا کِیوں کہیں گے؟
میاں طفیل محمد کا حضرت داتا گنج بخشؒ کی تصنِیف ’’کشف اُلمحجوب‘‘ کا فارسی سے اُردو میں ترجمہ شائع ہُوا تو مجھے یاد ہے کہ اُنہی دِنوں نذیر ناجی نے اپنے کالم ’’سویرے سویرے‘‘ میں لکِھا تھا کہ ’’میاں طفیل محمد صاحب کو فارسی زبان تو آتی ہی نہیں انہوں نے ’’کشف اُلمحجوب‘‘ کے کسی اُردو ترجمے کا ترجمہ کِیا ہو گا۔‘‘ قاضی حسین احمد (مرحوم) کو فارسی زبان خُوب آتی تھی۔ وہ اپنی تقریروں اور تحریروں میں علّامہ اقبال کے فارسی اشعار کا حوالہ دِیا کرتے تھے۔ جناب سِراج اُلحق کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ ’’انہیں فارسی زبان پر عبور ہے‘‘ بہت اچھی بات ہے۔ یقیناً انہوں نے بھی علّامہ اقبال کا فارسی کلام پڑھا ہو گا۔ ایران میں علّامہ اقبال کا فارسی کلام بہت مقبول ہے۔ اہلِ ایران علّامہ اقبال کو ’’اقبال لاہوری‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ سِراج اُلحق صاحب لاہور تو آ ہی گئے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ وہ کسی دِن مزارِ اقبال پر بھی فاتحہ پڑھ آئیں۔ منصُورہ سے دربار حضرت داتا صاحبؒ چلے جائیں گے تو وہاں سے مینارِ پاکستان اور علّامہ اقبال کے مزار تک پہنچنے کا  راستہ بھی سِیدھا ہے جو ہر لاہوری کو معلوم ہے۔ حضرتِ داغؔ دہلوی نے  اُلفت کے سِیدھے راستے پر نہ جانے کا حِیلہ اختیار کرتے ہُوئے کہا تھا کہ  ؎
’’رہِ اُلفت کو اِک سِیدھا سا رستہ ہم نے جانا تھا
مگر دیکھا تو اِس رستے میں صد ہا پیج و خم نِکلے!‘‘
جناب سِراج اُلحق کے ساتھ تو سیِدھے راستے پر چلنے اور دوسروں کو چلانے والے جماعتِ اسلامی کے ارکان بھی موجود ہیں لیکن وہ لوگ کیا کریں کہ جِن کے بارے میں شاعر نے کہا تھا کہ  ؎
’’کِیا ہزاروں کو سِیدھا فلک کی گردِش نے
مرا نصِیب مگر راہ پر نہیں آتا‘‘
بہرحال جناب سِراج اُلحق کو "WelCome" کِیا جانا چاہیے اور اگر وہ شعری ذوق بھی رکھتے ہُوں تو "Most WelCome" ۔

ای پیپر دی نیشن