ٹوٹتے جمود سے اٹکھیلیاں

Apr 12, 2014

سعید آسی

کٹ حجتیوں والے دلائل جاری ہیں تو مشرف کی نظرثانی کی درخواست پر گذشتہ روز سپریم کورٹ کے جاری کئے گئے تفصیلی فیصلہ پر بھی یہ تبصرہ کیا جا سکتا ہے کہ موجودہ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں عدالتِ عظمیٰ کے بنچ نے سپریم کورٹ کے 31 جولائی 2009ء کے فیصلہ کو برقرار رکھ کر اور ساتھ ہی یہ باور کرا کے کہ اس کیس میں سابق چیف جسٹس مسٹر جسٹس افتخار محمد چودھری نے کسی تعصب کا مظاہرہ نہیں کیا، درحقیقت اپنے ادارے کے سابق سربراہ کا ساتھ دیا ہے اور اس کا مقصد بھی اپنے ادارے کے وقار پر کوئی آنچ نہ آنے دینے کا ہے۔ مگر کیا ماورائے آئین اقدام کے تحت اقتدار پر براجمان جرنیلی آمر کے 3 نومبر 2007ء کے ماورائے آئین اقدام کو سپریم کورٹ پہلے ہی کی طرح نظریۂ ضرورت کی پخ لگا کر جائز قرار دے دیتی اور وہ بھی اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کی فل کورٹ کی جانب سے؟ اگر انہوں نے عدالتی ہزیمتوں پر مبنی اس کردار کی پیروی کرنا ہوتی تو اسی جرنیلی آمر مشرف کے ہاتھوں 9 مارچ 2007ء کو ان کی معطلی کی نوبت ہی کیوں آتی۔ اگر انہوں نے اپنے 9 مارچ کے حرفِ انکار کے ذریعے عدلیہ کو نظریۂ ضرورت والی ہزیمتوں سے باہر نکلنے کا راستہ دکھایا اور منتخب جمہوریتوں پر شب خون مارنے والی جرنیلی آمریتوں کے خلاف منظم سول سوسائٹی کی شکل میں پوری قوم کو متحرک کیا جس پر عدلیہ بحالی جدوجہد کی کامیابی کا پھل سابق منتخب حکمرانوں کے بعد اب موجودہ منتخب جمہوری حکمران بھی کھا رہے ہیں تو کیا تصور کیا جا سکتا ہے کہ مسٹر جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں عدالتِ عظمیٰ مشرف کے 3 نومبر 2007ء والے یا دوسرے کوئی سے بھی ماورائے آئین اقدامات کے خلاف کسی آئینی درخواست پر ان کے آگے دو زانو ہو کر ان کے حق میں فیصلہ صادر کر دیتی اور آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کے لئے اپنی ہی جدوجہد کے سارے ورق پھر سے کالے کر دیتی۔
اور پھر مشرف یہ زعم لے کر سپریم کورٹ جائیں کہ سابقہ آرمی چیف کی حیثیت سے ان کے سارے ماورائے آئین اقدامات کے باوجود فوج آج بھی ان کے ساتھ کھڑی ہے تو پھر انہیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے تھی کہ یہ ادارہ بھی تو اپنے سابقہ سربراہ کے ساتھ کھڑا ہو سکتا ہے۔ اگر اپنے لئے دادرسی کی اس درخواست میں انہیں یہ گمان تھا کہ سپریم کورٹ اپنے سابق سربراہ کے حوالے سے کسی تعصب سے بالاتر ہو کر صرف آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ صادر کرے گی تو پھر یہی توقع ان کے سابقہ ادارے (افواج پاکستان) اور اس کے سربراہ سے آج پوری قوم کیوں وابستہ نہیں کر سکتی۔ ادھر تو زمین و آسمان کے قلابے ایک کر کے یہ تاثر پختہ کیا جا رہا ہے کہ فوج مشرف کی جرنیلی آمریت کے باوجود ان کے ساتھ کھڑی ہے کہ یہ اس ادارے کے سابق سربراہ ہیں جن کی بے عزتی کو فوج اپنی بے عزتی تصور کرتی ہے۔ بھئی اگر ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کی وکالت کرنی ہے تو پھر کسی ادارے کا ’’دھڑا کُٹنے‘‘ کی منطق کیسے لاگو کی جا سکتی ہے۔ مشرف نے یا دوسرے سابق جرنیلی آمروں نے اپنی آئینی ذمہ داریوں سے تجاوز کرتے ہوئے بندوق کے زور پر آئین کا حلیہ بگاڑا اور ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ والے فلسفے کی بنیاد پر اقتدار پر ناجائز قبضہ جمایا تو آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری میں اس جرنیلی ٹوکے کو جائز کیسے قرار دیا جا سکتا ہے، سو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے مشرف کے  3 نومبر 2007 کے پی سی او اور ان کی نافذ کردہ ایمرجنسی کو اس کے نفاذ کے دن سے ہی باطل قرار دے کر ان سے کوئی انتقام نہیں لیا بلکہ ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی کے راسخ ہونے کا پیغام دیا تھا، اب چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں عدالتِ عظمیٰ نے مشرف کی نظرثانی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے اپنے سابق چیف جسٹس والی سپریم کورٹ کے فیصلہ کو برقرار رکھا ہے اور ساتھ ہی اپنے سابق سربراہ کو یہ سرٹیفیکٹ بھی دے دیا ہے کہ انہوں نے تعصبات سے بالاتر ہو کر اس کیس کی سماعت کی تھی تو سارے خوش فہموں کو یہ واضح پیغام مل جانا چاہئے کہ جسٹس افتخار محمد چودھری کے بعد بھی سپریم کورٹ آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کے ساتھ کھڑی ہے۔
اس وقت بدقسمتی سے دو معاملات میں انتہائی غلط بحث ہو رہی ہے۔ مشرف غداری کیس کے خلاف اس تصور کے تحت غلط بحث کی جا رہی ہے کہ ماضی میں کسی عدالت، کسی سول حکمران اور کسی آئینی ادارے کو کسی جرنیلی آمر کے ماورائے آئین اقدام پر اس کے خلاف غداری کا کیس چلانے کی جرأت ہوئی ہے جو اب ہو گی؟ اگر اس منطق (کٹ حجتی) کو بنیاد بنا کر یہ نتیجہ اخذ کیا جائے کہ غداری کیس میں مشرف کا کوئی بال بیکا بھی نہیں کر سکتا تو پھر پوری قوم اپنی تقدیر کے لکھے پر صاد کرتے ہوئے منجمد ہو کر بیٹھ جائے گی۔ بھئی غداری کیس اس انجماد کو توڑنے اور یہ تاثر زائل کرنے کے لئے ہی تو لایا گیا ہے۔ اگر میں اس کیس میں مشرف پر انصاف کی عملداری ہوتے دیکھ رہا ہوں تو اس کا پس منظر یہی ہے کہ آخر کسی نے تو جمود توڑنا ہے، کسی نے تو بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنی ہے اور کسی نے تو اس معاشرے کو آئین و قانون کی حکمرانی والے معاشرے میں ڈھالنا ہے۔ پھر اس مثبت تبدیلی کا حامل یہ موجودہ دور ہی کیوں نہیں ہو سکتا؟ سو خوش فہموں کو اب اس سوچ سے باہر نکل آنا چاہئے کہ پہلے کسی نے جرنیلی آمروں کو ہاتھ ڈالا ہے جو اب ڈالا جائے گا؟ اگر آج کسی نے چاہے جیسے بھی حالات میں سہی، کسی جرنیلی آمر پر ہاتھ ڈالا ہے تو کیا اسے یہ ڈراوا دے کر اس کے حوصلے پست کئے جائیں کہ آپ ماضی کی طرح پھر بم کو لات مار رہے ہیں اس لئے اب اپنے سابقہ انجام کے لئے تیار رہیں۔ میرا یقین ہے کہ اب اس کٹ حجتی کے حق میں کوئی فضا ہموار نہیں ہونے والی۔
دوسری غلط بحث بھی ایسی ہی کٹ حجتی پر مبنی ہے کہ بطور ادارہ فوج اپنے سابقہ سربراہ پر انصاف کی عملداری پر مبنی کوئی آنچ نہیں آنے دے گی۔ اس حوالے سے بالاہتمام آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ایک بیان کے ذریعے بات کا بتنگڑ بنانے کی کوشش کی گئی مگر کور کمانڈرز میٹنگ کے بعد یہ گرد بھی بیٹھ چکی ہے۔ اگر اس تصور کو ہی غالب آنے دیا جائے تو کل کو ہر ادارہ اپنے سابقہ یا موجودہ سربراہ کے ہر غیر قانونی اور غیر آئینی کام کا دفاع کرتا نظر آئے گا، حکومت بطور ادارہ اپنے سابقہ سربراہِ حکومت کے سارے غیر آئینی اور ناجائز اقدامات کا تحفظ کر رہی ہو گی، پارلیمنٹ بطور ادارہ اپنی سابقہ پارلیمنٹ کے ہر فیصلے اور ہر قانونی و آئینی ترمیم کو حرزِ جاں بنائے رکھے گی اور اس طرح اپوزیشن کا تصور ہی ختم ہو جائے گا۔ اگر ایسی ہی کٹ حجتیوں کی عملداری ہونی ہے تو پھر آنکھیں بند کر کے اور کان لپیٹ کر یہ تصور کرتے ہوئے لمبی تان لیجئے کہ ’’رام بھلی کرے گا‘‘۔ نہیں بھائی صاحب، نہیں! ہمیں اب اپنے بھلے کا خود ہی سوچنا اور خود ہی بنانا ہے۔ اب ہمارے معاشرے میں انصاف کی عملداری راسخ ہو رہی ہے تو اس کا میٹھا پھل کھائیے، اس میں زہر گھول کر پورے معاشرے کو قبرستان کی جانب مت دھکیلئے۔ قبرستان میں تو مجاروں کی حکمرانی ہوتی ہے۔ آپ اس ٹوٹتے جمود سے اٹکھیلیاں کرو گے تو اس معاشرے کو قبرستان ہی بنائو گے۔

مزیدخبریں