دبئی (نیٹ نیوز + بی بی سی) متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور ڈاکٹر انور محمد قرقاش نے یمن کے تنازعے میں غیر جانبدار رہنے کے فیصلے پر پاکستان کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے اس اہم مسئلے پر متضاد اور مبہم مؤقف کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ دوسری جانب پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اماراتی وزیر خارجہ کے بیان پر تبصرہ کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ ان کے پاس اس بارے میں مکمل معلومات نہیں ہیں۔ انہوں نے اس ضمن میں مزید بات کرنے سے انکار کیا۔ خلیج ٹائمز کے مطابق متحدہ عرب امارات کیوزیر مملکت برائے خارجہ امور ڈاکٹر انور محمد قرقاش نے پاکستان پارلیمنٹ میں یمن کے تنازعے پر غیر جانبدار رہنے کی متفقہ قرارداد منظور ہونے کے بعد ٹویٹ میں اس فیصلے کی مذمت کی ہے۔ خلیج ٹائمز کے مطابق انہوں نے ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ خلیج اس وقت خطرناک جنگ میں ہے، اس کی سٹریٹیجک سکیورٹی ایک دہانے پر کھڑی ہے۔ اس وقت اس سچ کو واضح کرنا ہوگا کہ اصل اتحادی کون ہیں، میڈیا اور بیانات کی حد تک رہنے والے اتحادی کون ہیں۔ پاکستان کو خلیج تعاون کونسل کی چھ ریاستوں کے ساتھ اپنے سٹریٹیجک تعلقات کے حق میں واضح موقف اختیار کرنا ہو گا۔ اس اہم مسئلے پر متضاد اور مبہم آرا کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک کاہلی پر مبنی غیر جانبدارانہ موقف کے سوا کچھ نہیں۔ انہوں نے یمن کے تنازع پر ترکی اور ایران کا موقف کو یکساں قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی جس میں ترکی کے وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ مسئلے کے سیاسی حل کی ذمہ داری ترکی، ایران اور سعودی عرب کی ہے۔ انہوں نے پاکستان کی ایران کے بارے میں پالیسی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا: ’لگتا ہے کہ اسلام آباد اور انقرہ کے لئے خلیجی ممالک کی بجائے تہران زیادہ اہم ہے اگرچہ ہمارے معاشی اور سرمایہ کاری کے اثاثے ناگزیر ہیں لیکن اس اہم موقع پر سیاسی حمایت موجود نہیں۔ پاکستان اور ترکی کی مبہم اور متضاد رائے واضح ثبوت ہیں کہ لیبیا سے لے کر یمن تک کی ذمہ داری کسی کی نہیں بلکہ عرب ریاستوں کی ہے اور ہمسایہ ممالک کے لئے یہ بحران اصل امتحان ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو خلیج کی چھ قومی عرب تعاون کونسل کے ساتھ اپنے اسٹریٹیجک تعلقات کے حق میں واضح موقف اختیار کرنا چاہئے۔ انہوں نے پاکستان کی قرارداد کو خلیج کے بجائے ایران کا ساتھ دینے کی علامت قرار دیا۔ انہوں نے ٹویٹر پر پیغام میں پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ عرب کے ممالک کے ساتھ اپنے سٹرٹیجک تعلقات کو واضح کرے۔ خلیج عربی خطرناک صورتحال سے گزر رہا ہے۔ اس کی سٹرٹیجک سلامتی بھی خطرے میں دکھائی دیتی ہے۔ یہ موقع اصل اتحادی کی پہچان کے امتحان کا ہے۔ "پاکستانی پارلیمنٹ کا یمن کے بحران میں بیک وقت غیر جانبدار رہنے اور سعودی عرب کی حمایت کا اعلان غیر متوقع کھلا اور خطرناک تضاد ہے۔ دریں اثنا ترجمان پاکستان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ امارات کے وزیر کے بیان کی تصدیق تک کوئی ردعمل نہیں دینگے۔
اسلام آباد (جاوید صدیق) سعودی عرب کے نائب وزیر مذہبی امور ڈاکٹر عبدالعزیز بن عبداللہ المعمار نے کہا ہے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے یمن کے معاملے پر جو قرارداد منظور کی ہے میں اس پر تبصرہ نہیں کروں گا یہ پاکستان کا داخلی معاملہ ہے مگر پاکستان کے عوام کے جذبات اور احساسات بالکل اور ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان رشتے لازوال ہیں۔ نوائے وقت سے خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہاکہ پاکستان کے عوام اور حکومت دونوں سعودی عرب کے ساتھ ہیں ان سے استفسار کیا گیا کہ یمن کا بحران بات چیت کے ذریعے حل ہو گا یا پھر فوجی حل ناگزیر ہے تو انہوں نے کہا کہ یمن کے بحران کے حل کے لئے تین سال سے بات چیت چل رہی تھی۔ سعودی عرب نے مذاکرات کو ترجیح دی مگر اس مسئلہ کو بیرونی مداخلت کے ذریعے اُلجھا دیا گیا ہے۔ یمن میں خون خرابہ کیا گیا، بچوں اور عورتوں کو قتل کیا گیا اور مسجدوں کو شہید کیا گیا، یہاں تک کہ بچوں اور عورتوں کو بموں سے اڑایا گیا، ایران باغیوں کی پشت پناہی کر رہا ہے، بغاوت کرنے والے بات چیت پر آمادہ نہیں تھے وہ آگے بڑھتے جا رہے تھے اس لئے سعودی عرب اور دوسرے ممالک کو بحران کے حل کے لئے مداخلت کرنا پڑی۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ تاثر درست ہے کہ ایران سعودی عرب کا گھیرائو کر رہا ہے تو انہوں نے کہا کہ یہ تو بالکل واضح ہے خود ایران نے کہا ہے کہ اس نے بغداد لے لیا، دمشق لے لیا ہے، بیروت لے لیا ہے اب صنعا بھی لیں گے۔ یہ شیعہ سنی لڑائی نہیں ہے، دونوں فرقے سینکڑوں سال سے اکٹھے رہ رہے ہیں، یہ دونوں کو آپس میں سیاسی مقاصد کے لئے لڑانے کی کوشش ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ سعودی عرب اپنی سالمیت کو لاحق خطرات کے خاتمے کے لئے بڑی فوجی قوت کیوں نہیں بنتا تو انہوں نے کہا کہ سعودی عرب مضبوط عسکری قوت ہے وہ اپنا دفاع کر رہا ہے۔ سعودی عرب نے یمن میں جو اقدام کیا ہے اسے سارے ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ پاکستان سے جو عسکری امداد سعودی عرب نے مانگی ہے کیا اُسے مل جائے گی تو انہوں نے کہا کہ ہم نے جو کچھ مانگا ہے اگر وہ پاکستان فراہم کرے گا تو آپ کو معلوم ہو جائے گا۔ بی بی سی کے مطابق سعودی عرب کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے اس کے فوجی اتحاد کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ حوثی باغیوں کے خلاف یمن میں جاری مہم پر اثرانداز نہیں ہو گا۔ سعودی عسکری مہم کے ترجمان نے کہا کہ یمن میں باغیوں پر بمباری کی مہم کامیابی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ اگر پاکستانی فوج اس اتحاد میں شامل بھی ہوئی تو اس کا کردار مددگار کا ہی ہوتا۔ پریس بریفنگ میں سعودی فوج کے ترجمان بریگیڈئر جنرل احمد عسیری نے کہا ہے کہ اتحادی طیاروں نے یمن کے 9قصبوں میں باغیوں کے فوجی کیمپوں کو نشانہ بنایا ہے، عدن میں باغیوں کے زیرکنٹرول مرکزی سپورٹس سٹیڈیم میں باغیوں کا اسلحہ ڈپوکو تباہ کر دیا گیا۔ طیاروں نے عدن شہر کے مرکزی سپورٹس سٹیڈیم پر بمباری کی جسے باغی اسلحہ ڈپو کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ باغیوں کی قائم کردہ چیک پوائنٹس اور دیگر ٹھکانوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ بیحان شہر میں حوثی باغیوں کے زیر قبضہ عمارت کے باہر کار بم دھماکے میں 20 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے ہیں۔ یمن میں اقوام متحدہ کے امدادی کوآرڈینیٹر نے اپیل کی ہے کہ فضائی حملوں اور زمینی لڑائی میں روزانہ کی بنیاد پر چند گھنٹوں کا وقفہ دیا جائے تاکہ عالمی ادارے متاثرہ علاقوں میں ادادی سامان پہنچا سکیں۔ عالمی امدادی ادارے ریڈ کراس نے عدن کے بعد پہلی بار دارالحکومت صنعا میں بھی 16ٹن سے زائد طبی اور دیگر امدادی سامان پہنچایا ہے۔ مصر نے سعودی عرب کی قیادت میں یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف جاری آپریشن میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے اس حوالے سے ریاض حکومت سے صلاح مشورہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ نے یمن میں متحارب فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ امدادی سرگرمیوں میں سہولت فراہم کرنے کے لئے روزانہ چند گھنٹوں کے لیے جنگ بندی کا فیصلہ کریں تاکہ متاثرہ علاقوں میں طبی اور دیگر امدادی کاموں کا سلسلہ شروع کیا جا سکے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق کے یمن سے متعلق ڈائریکٹر یوھانس فاڈیر کلائو نے جنیوا میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یمن میں جنگ سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کاموں کی بحالی کی فوری ضرورت ہے۔ اس لیے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ فریقین چند گھنٹے کی جنگ بندی کا فیصلہ کریں۔ ادھر امریکہ نے یمن آپریشن کے خلاف سعودی عرب سے انٹیلی جنس شیئرنگ بڑھا دی ہے۔ اطلاعات کے مطابق شمالی یمن میں حکومتی فورسز اور حوثیوں کے درمیان شدید لڑائی میں 25افراد مارے گئے ہیں۔ ادھر یمن میں حوثی باغیوں اور سعودی عرب کی قیادت میں اتحادی ممالک کے درمیان جنگ میں تیزی آتے ہی وہاں پناہ لینے والے افریقی ملک صومالیہ کے ہزاروں مہاجرین وطن واپس روانہ ہو گئے ہیں۔آئی این پی کے مطابق سعودی عرب کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے فوجی اتحاد کا حصہ نہ بننے پر وہ حوثیوں کے خلاف یمن میں جاری مہم کا دائرہ کار محدود نہیں کرے گا۔عرب ٹی وی کے مطابق یمن میں حوثی باغیوں کی شیلنگ سے تین مزید سعودی فوجی جاں بحق اور زخمی ہوئے۔ سعودی فوجی آپریشن میں اب تک 500حوثی باغی ہلاک ہو چکے ہیں۔
پاکستان کے فیصلے سے ہماری مہم متاثر نہیں ہو گی: سعودی عرب، اسلام آباد کو مبہم موقف کی بھاری قیمت چکانا پڑیگی، وزیر متحدہ عرب امارات
Apr 12, 2015