مجھے چھٹی کے دن کے لئے کالم لکھنا ہوتا ہے تو میں بالکل غیرسیاسی ہو جاتا ہوں۔ میرے پاس بہت کتابیں آتی ہیں۔ میں کتابیں اور پگڑیاں بہت کم خریدتا ہوں۔ اتنے تحفے ملتے ہیں کہ سنبھالے نہیں جاتے مگر اب کوئی عمل غیرسیاسی نہیں رہا اور میری کوشش ہوتی ہے کہ میں سیاسی معاملے کو بھی غیرسیاسی مشغلے میں تبدیل کر دوں۔ اتوار کا دن میرے لئے غنیمت دن ہے۔ میں غنیمت کو نعمت سمجھ لیتا ہوں کہ اب نعمتیں ہم سے روٹھ گئی ہیں؟
سلمیٰ اعوان ہماری ایک بڑی بہن کی طرح شفقت کرنے والی خاتون ہے۔ اتنی مخلص ادیبہ کم کم ہمارے ہاں ہو گی۔ کوئی 22 کتابیں اس نے لکھی ہیں۔ تقریباً ساری مجھے دی ہیں جن میں چھ سات سفر نامے ہیں۔ میں مستنصر تارڑ کو بہت پسند کرتا ہوں اور پھر سلمیٰ اعوان نے مجھے متاثر کیا ہے۔ اس کا نیا سفر نامہ ’’عراق اشک بار ہیں ہم‘‘
لوگ تو سمجھتے ہیں کہ ہنسنے ہنسانے والے سفر نامے اچھے ہوتے ہیں مگر رونے رلانے والے سفر نامے بہت اچھے ہوتے ہیں۔ میں کتاب پڑھتا گیا اور اشک بار ہوتا گیا۔ میرے آنسو آنکھوں میں تیرتے رہے۔ اس لذت گریہ کا جو مزہ آیا وہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ آپ یہ کتاب پڑھیں اور اپنے گلے سے لگ کر روئیں۔ پڑھو بار بار پڑھو اور روتے جائو مگر آنسو نہ گرنے پائیں۔
’’دھرتی کے پیار میں گرفتار لوگو! میں اپنے دروازے پر آئے وحشیوں سے خائف نہیں۔ میں تو ڈرتی ہوں اندرونی دشمن سے۔ آمریت مطلق العنانی بدعنوانی، کرپشن فرقہ واریت اور سکھا شاہی سے۔‘‘
پروفیسر ڈاکٹر خالد مسعود گوندل بہت اچھے دل والے انسان ہیں۔ ایک ڈاکٹر کو ایسا ہی ہونا چاہئے۔ وہ ایک بہت کامیاب سرجن ہیں۔ ان کی کتاب ’’مشاہدات‘‘ دیکھ کر میں حیران ہو گیا۔ وہ ایک جینوئن مذہبی آدمی ہیں۔ ان کے لئے مشاہدات وہ ہیں جو حرمین شریفین کی زیارت کے دوران نظر آئے۔ میرے لئے مشاہدات غیب کے مناظر ہیں۔ جن دنوں میں عملی تصوف میں محو تھا تو آنکھ بند کرتے ہی مراقبے میں انوار کی بارش ہوتی تھی اور کئی ان دیکھے مناظر بھی دل کی نگاہوں سے مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ جس پر غیب کی کھڑکی کھلتی تھی۔ اسے صاحب مشاہدات کہتے تھے۔ مجھے ایسی کیفیت ڈاکٹر خالد گوندل میں بھی نظر آئی۔ میرے خیال میں ہر ڈاکٹر کو ذوق و شوق کی دنیا کا آدمی ہونا چاہئے۔ اس طرح دل میں درد و گداز پیدا ہوتا ہے اور وہ مریض کو دوست کی طرح سمجھتا ہے۔
یہ کتاب پڑھ کر فوراً عمرے پر جانے کا ارادہ پیدا ہوتا ہے۔ ایک ن لیگی کہنے لگے ہم چاہیں تو ہر دن عمرہ کر سکتے ہیں۔ ہم رائے ونڈ ’’جاتی عمرہ‘‘ ہو آتے ہیں۔ نواز شریف ہوں یا نہ ہوں انہیں سلام کر آتے ہیں اور ہمارا عمرہ ہو جاتا ہے۔ اسے سیاسی عمرہ کہنا چاہئے۔ سرکاری حکومتی عمرہ کو بھی سیاسی عمرہ کہتے ہیں۔ روایت ہے کہ یہ عمرہ اقتدار کی عمر بڑھا دیتا ہے مگر کئی لوگ اقتدار میں آئے اور چلے گئے۔ تیرے جیسے تو آتے رہتے ہیں۔ آتے رہتے ہیں جاتے رہتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر ظفراللہ خان نے ڈاکٹر خالد گوندل کی اس کتاب کے لئے لکھا ہے کہ اس طرح عمرہ اور حج کا شوق بڑھتا ہے۔
نائب مہتمم و ناظم تعلیمات جامعہ اشرفیہ حافظ فضل الرحیم اشرفی نے بہت بابرکت الفاظ لکھے ہیں۔ ’’پروفیسر گوندل صاحب نے بہت سارے ممالک کا سفر کیا ہے۔ اللہ نے انہیں دین و دنیا کی نعمتوں سے نوازا ہے۔ خاص طور پر دیار حجاز کا سفر بہت جوش و خروش سے کیا ہے۔ ملک کی سیر بھی ہو جاتی ہے اور فکر آخرت کا سبق بھی مل جاتا ہے۔‘‘ میرے خیال میں اس کتاب کا مطالعہ آدمی کو عمرے کی سعادت کے ذوق و شوق سے لبریز کر دے گا۔ میں امید کرتا ہوں کہ ڈاکٹر خالد گوندل ایسی کئی کتابیں لکھیں گے اور دلوں میں عشق رسولؐ کے چراغ جلائیں گے۔
پروفیسر مقصود جعفری نے ٹیکساس امریکہ سے انگریزی زبان و ادب میں پی ایچ ڈی کی ہے مگر اس نے ایک زبردست شعری مجموعے ’’آواز عصر‘‘ کے لئے صرف اپنا نام لکھا ہے۔ مقصود جعفری۔ یہ ایک ایسی بڑائی ہے جس کا جواب نہیں ہے۔ شعری مجموعے پر نام کے ساتھ ڈاکٹر کا لفظ غیرضروری لگتا ہے۔ شاعر تو مریض دل ہوتا ہے۔ ہم گورڈن کالج راولپنڈی میں اکٹھے تھے۔ پروفیسری ہماری دوستی کی سانجھ تھی۔ مقصود جعفری شعر و ادب کے خصوصی ذوق و شوق میں سارے کالج میں ہردلعزیز تھے۔ چند برسوں کے بعد ہم بچھڑ گئے مگر تعلق جو ایک بار بن جائے وہ کبھی نہیں ٹوٹتا۔ رابطہ نہ رہنا کوئی دیوار نہیں بنتا۔ دیواروں میں دروازے بنتے رہتے ہیں۔ یہ کوئی 1972ء کا واقعہ ہے۔ 2015 میں مقصود نے رابطہ کیا تو یوں لگا جیسے ہم ایک دوسرے سے جدا ہی نہ ہوئے تھے۔ ’’آواز عصر‘‘ اس نے میری طرف بھیجی اور میرے چاروں طرف آوازوں کا ایک ہجوم بکھر گیا۔ اس کتاب میں زیادہ تر نیویارک کے دوستوں نے اپنے تاثرات بیان کئے ہیں۔ صدر حلقہ ارباب امریکہ نیو یارک سے اشرف میاں نے مقصود جعفری کو شاعر انسانیت قرار دیا ہے۔ میاں صاحب نے مقصود کے لئے جوش ملیح آبادی کے حوالے سے لکھا ہے کہ جوش نے مقصود جعفری کو مستقبل کا نامور شاعر قرار دیا ہے۔ اشرف میاں نے مقصود کو خطابت کا بطل جلیل کہا ہے۔ آپ مذہبی رواداری کے زبردست نقیب ہیں۔
پروفیسر خالدہ ظہور (نیویارک) نے لکھا ہے جعفری صاحب نے عمر بھر عمدہ گفتگو سے دوستی رکھی ہے وہ ایک اعلیٰ درجے کے مقرر اور معروف استاد ہیں۔ شاعر ادیب اور دانشور ہیں۔ مقصود جعفری کے چند اشعار:
عریانیوں کے دور میں بند قبا نہ مانگ
فضل خزاں میں نکہت و باد صبا نہ مانگ
دست یزید سے نہ کٹے پھر کوئی حسینؓ
اے جعفری تو پھر سے کوئی کربلا نہ مانگ
کچھ نام لوگوں عورتوں اور کتابوں کے ایسے ہوتے ہیں جو ہمیشہ دل پر نقش ہو جاتے ہیں۔ ’’ہمیشہ‘‘ بھی ایک شعری مجموعے کا نام ہے جو ناز فاطمہ کے لئے ایک ہمیشگی کی کیفیت کا کیف لے کے دل میں اترتا ہے اور اترتا ہی چلا جاتا ہے۔ رخسانہ نور کا ’’الہام‘‘ صوفیہ بیدار کا ’’تاراج‘‘ ڈاکٹر صغرا صدف کا ’’وعدہ‘‘ فہمیدہ کوثر کا ’’صحرا‘‘ پروین شاکر کا ’’خوشبو‘‘ شاہین مفتی کا ’’مسافت‘‘ مگر مجھے ’’ہمیشہ‘‘ بہت اچھا لگتا ہے۔ میں نے یہ کتاب کئی بار پڑھی ہے۔ مجھ پہ منکشف ہوا کہ کتاب اور خواب ایک ہی واردات کے دو نام ہیں۔ مختلف عنوانات کی کم و بیش 20 نظمیں ہیں جن کے ساتھ ہمیشہ کا لفظ ایسے لکھا ہوا ہے جیسے وہ اس کا حصہ ہو۔ پانیوں پر چلتی ہوئی آگ سے گزرتی ہوئی ہوا کو مٹھی میں لے کر اور آسمانوں کو چھو کر میں چاند تاروں کے سنگ سنگ تھی۔ وقت رکا نہیں تھا۔ میں حالت سفر میں تھی۔ ہمیشہ۔
شیشۂ ذات کی طرح ہوں میں
ان کہی بات کی طرح ہوں میں
جس سے مل کر ملا نہیں جاتا
اس ملاقات کی طرح ہوں میں
میرا ہمدم ہے میرا سناٹا
چاندنی رات کی طرح ہوں میں
جس کو آندھی اڑائے پھرتی ہے
ہاں اسی پات کی طرح ہوں میں