شریف فیملی پر پانامہ یلغار اور مستقبل

Apr 12, 2016

خواجہ ثاقب غفور

”پانامہ افشاءطوفان“نے وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کے بیٹوں حسین نواز اور حسن نواز کے اربوں روپے کے کاروبار، دھن، بینک، بیلنس، پراپرٹی اور آف شور کمپنیوں کے قیام اور سرمایہ کے دوام پر پاکستان کے اندر ہلچل مچادی ہے جسکے نتیجے میں وزیراعظم پاکستان کو قوم سے خطاب میں وضاحتیں، احتساب اور صفائیاں پیش کرنے کی جلد بازی کرنا پڑی ایسے اوسان خطا شدید دباﺅ میں 60 سال کی والد میاں محمد شریف مرحوم اور بیٹوں تک کے کاروبار کی بارہا بیان کردہ ”تاریخ“ دہرا دی لیکن سوال بنیادی وہاں کا وہاں ہی کھڑا ہے کہ کاروبار کیلئے اربوں روپے اور اربوں کی الگ سے پراپرٹی خریدنے کا سرمایہ کہاں سے اور کس کمائی سے آیا؟ کیا یہ ملکی بینکوں، کمیشن یا دوستوں کے اربوں کے تحائف تھے؟ یا یہ سرمایہ کرپشن، کک بیکس، ملکی اثاثہ جات کی نجکاری میں مبینہ ”حصہ داری“ بڑے میگا پراجیکٹس میں ڈی کمپنیوں غیر ملکی کمپنیوں میں حصہ بقدر جثہ کا نتیجہ تھا؟ اب تلخ سچائی تو یہ ہے کہ ایک طرف نیب میں بعض مقدمات شریف فیملی کے کارروائی کے منتظر ہیں! نہ پیپلز پارٹی نے کارروائی کی نہ اب ہوتی ہے نہ ہوگی! ہوسکتا ہے ان مقدمات، تحقیقات میں الزامات ثابت نہ ہوں یا جھوٹے ہوں لیکن کارروائی نہ ہو نا شک کو پختہ کرتا ہے چاہئے یہ غلط ہی ہو، دوسری طرف تلخ سچ یہ بھی ہے کہ 12 اکتوبر 1999ءکے بعد گرفتار میاں فیملی کے ”سخت کڑاکے“ ظلم نما جبر، نا انصافی پر مبنی جائیداد نہ فوجی کارروائیاں، تمام جائیدادوں کی ضبطگی، ملوں فیکٹریوں کی چار اداروں سے تفتیش، مقدمات، عدالتوں، ہائیکورٹ، سپریم کورٹ، بینک عدالتوں کے مقدمات کو ”بہت بڑا“ فراڈ، کرپشن، ثابت نہ ہوسکی۔ بینکوں سے 1990 سے قبل یا بعد بہت کم مارک پر قرضے البتہ ثابت شدہ ہیں اور قرض واپس نہ کرنا، معاف کرانا یا جائیدادیں عوض میں دینا، مقدمات کا فیصلہ یا تصفیہ یہ سب کچھ فوجی اور سول حکمرانی میں عدالتوں میں ہوتا رہا۔ بعض ججوں نے اپنے دنیاوی مفادات میں فیصلے دئیے ججوں کو بھی ”شریفین“ کی منظوری سفارش سے جج بنایا جاتا تھا تو فیصلے بھی ایسے ہی آنا تھے!

میاں نواز شریف اور دونوں بیٹوں یا اپنے خاندان کے کئی ارب کے سرمائے اور کاروبار کو تین یا چار ملکوں میں چلانا، پھیلانا یا توسیع دینا، بھارت میں نئے کاروبار سٹیل یا دیگر کے منصوبوں پر میٹنگ یہ سب پاکستان سے بے ”وفائی“ کہلائے گا۔ شریف فیملی کی محنت مع میاں محمد شریف اور بھائی وغیرہ کی بنیادیں 1982 کے بعد دن دگنی رات چوگنی کے مصداق ترقی کرتی گئیں پاکستانی بینکوں کا سرمایہ بطور قرض (سودی لین دین) ذاتی کاروبار میں ”بنیاد“ بنا یعنی پاکستانی قومی سرمائے سے بطور وزیرخزانہ پنجاب میاں نواز شریف نے دو مرتبہ وزیراعظم 1997 تک قرض لئے!
”صنعتی ایمپائر“ دو فیکٹریوں سے 25 کاروباری اداروں تک پھیل گئی! یہ ترقی ”اقتدار“ کے کرشموں کی مرہون منت ہے بے شک شریف فیملی نے ”خون پسینہ“ بھی ”اے سی“ کمروں میں بیٹھ کر بہایا! اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف کی رہائش کے گھروں کی مالیت 700 کروڑ ہونے کا الزام ہے اور اربوں کا سرمایہ وہ بتانے کے پابند نہیں۔ میاں نواز شریف کے متعلق ایک انٹرویو میں وہ کہہ چکے ہیں کہ ”ایک معاملہ شرعی بھی ہوتا ہے یعنی شریعت کے مطابق میں (حسین نواز) اور میری تمام کاروباری دولت میرے والد کی ہے!
بہت تابعدار بلکہ تابع فرمان اولاد ہونا ثابت ہوگیا اب جب وزیراعظم میاں نواز شریف یہ کہتے ہیں کہ میرے دونوں بیٹوں نے اپنی محنت، قابلیت، اللہ کی کرم نوازی سے اربوں روپے کے کاروبار کئے اور کمائے جس میں میرا حصہ نہیں ہے تو قانوناً یہ شاید درست ہو لیکن حسین نواز چونکہ اپنی تمام دولت کو شرعاً اپنے والد (حسین نواز کا فلسفہ) کی سمجھتے ہیں اور ایک فرماں بردار بیٹے کی طرح اپنے آپ کو بھی والد کی ملکیت سمجھتے ہیں تو پھر میاں نواز شریف ایک فیصلہ کرڈالیں کہ کم از کم 10 ارب روپے کے کاروبار کو بطور پہلی قسط اپنے مادر وطن اور غریب عوام کی فلاح کےلئے واپس پاکستان منتقل کرنے کا ”حکم“ حسین نواز کو دے دیں اس طرح پاکستان، غریب عوام، قرضوں میں جکڑی حکومت عوام کو بہت فائدہ ہوسکتا ہےے نیز وہ عالمی برادری کے سرمایہ کاروں کےلئے بڑا نمونہ بن سکتے ہیں کہ میرے بیٹے نے بھی پرائیوٹ کاروبار (حکومتی ٹھیکہ نہیں) کی سرمایہ کاری کی ہے۔ سینکڑوں ہنر مندوں اور انجینئرز، ماہرین کو بے روزگاری کے عذاب سے نجات مل سکتی ہے قومی خزانے میں ٹیکس جمع کرانے کی مثال قائم ہوگی اور ”ساری وفاداری“ پاکستان سے بھی!سپریم کورٹ کے بڑے کمیشن کا قیام بھی اہم ہے شریف فیملی میڈیا ٹرائل سے نجات کیلئے غیر جانبدار، دباﺅ سے آزاد ساکھ والے تین سینئر ججوں پر مشتمل کمیشن بنادیں اور 6 ماہ کے اندر یا زیادہ سے زیادہ شاید 9 ماہ کے اندر (جلد از جلد) تحقیقات کروا کر اپنے اوپر ”کالے ستارے“ کے خطرات ختم کرائیں اگر وہ بے گناہ اور دامن صاف ہے تو اپنی پسند کے جج ہرگز نہ لگائیں بلکہ چار بڑی اپوزیشن جماعتوں سے ججوں کے نام لے لیں تو زیادہ بہتر ہے بعد میں ”میں نہیں مانتا، دھرنا ہوگا“ کی گنجائش نہ رہے۔ اخلاقی برتری اور ساتھ زیادہ بہتر راستہ ہے شریف فیملی کا جینا مرنا اقتدار کا دوام پاکستان سے ہے تو اوپر ذکر کئے اقدامات اٹھا لینے سے استحکام ہی آئےگا!

مزیدخبریں