شکم پروری کے مختلف وسیلے!

Apr 12, 2017

ڈاکٹر تنویر حسین

ہمارے ملک میں بے روزگاری عروج پر ہے۔ نوجوان نسل بڑی بڑی یونی ورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہو کر فارغ نظر آتی ہے۔ بہت سے والدین اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے زمین، پلاٹ اور مکان تک فروخت کر دیتے ہیں۔ اپنی جمع پونجی خرچ کر دیتے ہیں۔ عزیز و اقارب، دوست احباب، بینکوں اور پٹھانوں وغیرہ سے قرضہ لیتے ہیں۔ جب یہ طلبہ زرِ کثیر کے عوض پرائیویٹ کالجز اور یونی ورسٹیوں سے بڑی بڑی ڈگریاں لے لیتے ہیں تو انکے ذہن میں بڑی بڑی نوکریاں گھومنے لگتی ہیں۔ جب انہیں حسب منشا بڑی نوکری نہیں ملتی تو ان کی اَنا کو بھی ٹھیس پہنچتی ہے۔ مراد یہ کہ چھوٹی نوکری قبول کرتے ہوئے ان کی بڑی ڈگری پر بھی آنچ آتی ہے اور عزتِ نفس بھی مجروح ہوتی ہے۔ہمارے دوست مقبول احمد صاحب بہت مشہور مصنف ہیں۔ ایجوکیشن کے حوالے سے انکی کتابیں پاکستان بھر میں بہت مقبول ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک ناشر نے ان سے کہا کہ آج کل مصنف نہیں ملتے۔ مقبول احمد صاحب کی رگِ ظرافت پھڑک اٹھی۔ مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمانے لگے۔ تنویر صاحب! آپ کسی شہر کے کسی علاقے کے باہر سے گزرنے والی سڑک کے کنارے لوگوں کا ہجوم دیکھتے ہیں۔ ان لوگوں کے چہروں پر گوشت کم اور ہڈیاں زیادہ نمایاں ہوتی ہیں۔ یہ لوگ جب کسی گاڑی یا موٹر سائیکل کو اپنے قریب رکتا دیکھتے ہیں تو سب اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔ سڑک کے کنارے بیٹھنے والے ہجوم میں شامل ہر شخص کی اپنی پہچان ہوتی ہے۔ آپ کو اگر مزدور کی ضرورت ہے تو ہجوم پر ایک نگاہ دوڑائیے۔ جس شخص کی کل کائنات ایک کسَی اور تغاری پر مشتمل ہو گی، وہ بندہ مزدور ہو گا۔ آپ کو گھر کے لیے مزدور چاہئیے تو سیدھے اس سے ملیں اور مزدوری طے کر کے اسے اپنے ساتھ لے جائیں۔ اسی طرح جو ہستی ہاتھ میں تیسی کانڈی اور لیول کرنے والی لکڑی تھامے ہو گی، وہ راج یا مستری ہو گا۔ جب آپ کسی راج کی خدمات حاصل کرتے ہیں تو وہ آپ کے زیرتعمیر گھر اور اخراجات کے بوجھ تلے آپ کے ہر دم دھڑکتے دل پر راج کرتا ہے۔ اسی طرح اگر آپ گھر میں سفیدی یا رنگ روغن کرانے کے خواہش مند ہیں تو جس شخص کے سامنے ایک رنگ روغن والا ڈبہ اور اس میں مختلف برش ہوں گے، اور اس کے کپڑوں پر رنگ و روغن کے داغ دھبے نمایاں ہوں تو وہ رنگ ساز ہو گا۔ چپس رگڑنے والوں کے سامنے چپس رگڑنے کی مشین ہو گی اور ایک آدھ شخص نے ٹنڈ بھی کرائی ہو گی۔ یہ سب لوگ مقررہ وقت پر اڈے پر پہنچتے ہیں۔ مقبول صاحب نے کہا کہ ناشرین کی سہولت کے لیے ہمیں بھی اُردو بازار کی بیرونی سڑک پر بیٹھنا چاہیے۔ آبکاری روڈ سے انسانی کھوپڑیاں اور انسانی پنجر مل جاتے ہیں۔ ہر مصنف کے ہاتھ میں ایک کھوپڑی اور حصہ شکم پر مبنی ماڈل ہونا چاہئے اور اپنے اپنے مضمون کا کوئی ماڈل بھی پاس رکھا ہونا چاہئے مصنفین نے اپنی پہچان کے لئے بورڈ پر وضاحت کی ہو۔ کالے بالوں والے مصنفین اور سفید بالوں والے تجربہ کار مصنفین۔ بہت تیز تیز اور ایک ہفتے میں ایک کتاب لکھنے والے مصنفین، بہت ٹھہر ٹھہر کر اور بہت سوچ سمجھ کر لکھنے اور دو تین سال میں ایک کتاب لکھنے والے، مصنفین، جس طرح کسی زمانے میں مشہور پہلوان ہوا کرتے تھے۔ بھولو پہلوان، بودھی پہلوان، اور مست پہلوان وغیرہ، اسی طرح بھولو مصنف یعنی ناشر ہی سب کچھ طے کرتا ہے، بھولو مصنف بھولا بالا ہوتا ہے اور زیادہ تر لکھنے کا شوق رکھتا ہے اور گھر والوں کی نظر میں کوئی مقام نہیں رکھتا۔ گونگا مصنف بھی ناشر کے سامنے کچھ بول نہیں سکتا۔ اسی طرح بودھی اور مست مصنفین کی بھی الگ کیٹیگری ہوتی ہے۔ جس طرح نئے نئے اخبارات آرہے ہیں ہمیں خدشہ ہے کہ نا شرین کی طرح اخبار مالکان کو بھی اخبار کا پیٹ بھرنے والے صحافیوں اور کالم نگاروں کی قلت کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے۔ پہلے کام نگار مفت بھی کالم لکھ دیا کرتے تھے اور نام ہی کے نشے میں چائے پی کر مست پھرا کرتے تھے۔ اب کالم نگاروں کے نرخ کھمبوں کی اونچائی سے لگا ئے جاسکتے ہیں۔ آئندہ اگر اخبارات میں لکھنے والوں کی قلت پیدا ہو جائے تو ہمارے ہر دل عزیز مصنف پروفیسر مقبول احمد صاحب کا مشورہ بہت معقول ہے۔ اخبارات کے دفتروں کے باہر وکیلوں کی طرح ایک ایک لرزہ براندام میز اور کرسی مع زنجیر رکھی ہو۔ وہاں ہر طرح کے صحافی رونق افروز ہوا کریں۔ کسی میز پر جلی حروف پر مبنی ایک تختی لکھی ہو۔ سیاسی کالم لکھنے کا دس سالہ تجربہ دس منٹ میں کالم تیار، کسی میز پر لکھا ہو، معاشرتی کالم لکھوائیے۔ نہایت مناسب دام۔ نہایت کم وقت میں کالم تیار، سیاسی کالم نگار کی میز پر سیاست دانوں کے چہروں کے چمکتے دمکتے ماڈل رکھے ہونے چاہئیں۔ حادثات کے حوالے سے لکھنے والے کالم نگاروں کی میز پر ٹرکوں، بسوں ویگنوں اور کوچوں کے شکستہ ماڈل موجود ہوں۔ سبزیوں اور پھلوں کے نرخوں کے اتار چڑھائو پر خامہ فرسائی کرنے والوں کے سامنے تازہ سبزیاں اور پھل رکھے ہوں۔ بیک وقت اخبار کا پیٹ اور اپنا پیٹ بھرا سکتا ہے۔ معصوم شہریوں کو گن پوائنٹ پر لوٹنے اور کاریں چوری کرنے والوں کے خلاف خبریں اور فیچر تیار کرنے والے صحافیوں کی میز پر بچوں کے کھلونا نما پستول اور کلاشنکوفیں اور بچوں کی کاریں سجی ہونی چاہئیں۔ ساتھ ہی کہیں یہ بھی لکھا ہو۔ خبر یا فیچر کے پیسے الگ ہوں گے۔ خبر یا فیچر کی اشاعت کے بعد اگر گاڑی مل جائے تو اس کا انعام الگ ہوگا۔

مزیدخبریں