سرفراز علی حسین بہت پرانا دوست ہے اور نیا بھی ہے۔ اصلی پرانا وہی ہوتا ہے جو ہر دفعہ نیا لگے اور اصلی نیا وہی ہوتا ہے جو فوری طور پر پرانا لگے سرفراز کلاس فیلو ہے۔ ہم یونیورسٹی اورئنٹیل کالج میں اکٹھے تھے تب بھی سرفراز ایسا ہی تھا بلکہ ویسا ہی تھا مگر ایسا ویسا نہ تھا۔ سرفراز علی حسین کے اعداد 786ہیں۔
عددِ اسم سات سو چھیاسی
سرفراز اور علی حسین شمار
وہ بالکل اپنے نام جیسا ہے۔ ہم کسی محبت والے سے ملتے ہیں تو اسے بسم اللہ کہتے ہیں۔ سرفراز علی حسین نہیں کہتا کہ وہ خود بسم اللہ کی طرح ہے۔ پیلاک کی ڈی جی ڈاکٹر صغرا صدف بھی بسم اللہ کہہ کر دوستوں کا استقبال کرتی ہیں۔ مخصوص دوستوں کی خدمت بھی کرتی ہیں۔ عزیز لوگوں کی مدد بھی کرتی ہیں۔ پیلاک کو فنڈز ملتے ہیں۔ یہ ایک امیر کبیر ادارہ سمجھا جاتا ہے۔
سرفراز نے اپنے گھر میں محفل نعت اور محفل علی منعقد کی۔ میری صدارت رکھ دی گئی۔ مجھے اور پوری محفل کو یہ پتہ نہیں چلا کہ میں صدر محفل ہوں۔ محفل نعت کا صدر ہونا ہی نہیں چاہئے۔ یہ کائنات جو گزر رہی ہے اور جو گزر چکی ہے اس کے صدر صرف ایک ہیں اور وہ محمد رسول اللہ ہیں۔ جو کچھ کسی کو ملتا ہے وہ تنہائی سے ملتا ہے یا تشنگی سے ملتا ہے۔ تنہائی غار حرا کی اور تشنگی کربلا کی۔
مہمان خصوصی مقصود احمد تبسم تھے اور یہ اعزاز انہی کو زیبا تھا۔ وہ عجب شخص ہیں ڈوبے ہوئے اور کھوئے ہوئے جاگتے ہوئے اور سوئے ہوئے۔ اسی لئے میں نے تین چار مصرعے ان سے پہلے پڑھے اور پھر وہ پڑھتے رہے۔ میں نے بڑی مشکل سے انہیں بس کرنے پر اکسایا۔ بہت اچھی گہری اور روحانی شاعری انہوں نے سنائی۔ سب لوگوں نے کچھ نہ کچھ سنایا۔ سید حسن سرفراز، ظہیر عباس، اسلم شوق، ہجویری بھٹی، بیراجی سب نے سنایا صرف سعیدہ کرن اور کوکب کاظمی نے سنا۔ آج یوم ولادت علیؓ تھا۔ یہ غزل کی محفل نہ تھی بہت مبارک محفل تھی۔ محفل نعت اور محفل علیؓ۔
ایک فلاحی تنظیم اخوت کے سربراہ ڈاکٹر امجد ثاقب نے الحمرا میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسوہ¿ رسول انسانیت کے لئے سرچشمہ¿ حیات ہے۔ پھر اس کی تشریح اس طرح کی کہ ہمیں ان بچوں کا خیال رکھنا چاہئے۔ ان کے لئے اپنے بچوں کی طرح سوچنا چاہئے جو غربت کے باعث سکولوں میں نہیں جا سکتے۔ ہم نیکی کو مستحق لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال کریں تو سب مسائل ختم ہو جائیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب ”اخوت“ کے ذریعے یہی فلاحی کام کر رہے ہیں۔
علی پور چٹھہ کے گرلز کالج کی پرنسپل ڈاکٹر نگہت اور ان کے شوہر بشیر صاحب مجھ سے ملنے آئے۔ ان سے میرا تعارف علی پور چٹھہ کے میرے دوست ثاقب نگینہ کی معرفت سے ہوا تھا۔ نگینہ صاحب شہر کی فلاحی اور سماجی شخصیت ہیں۔ وہ بھی پڑھاتے ہیں۔ ڈاکٹر نگہت نے دو پی ایچ ڈی کی ہوئی ہیں وہ بڑی آسانی سے لاہور آ سکتی ہیں۔ ان کا گھر بھی لاہور میں ہے مگر صرف ایک دیہاتی قصبے میں بچیوں کی تعلیم کے فروغ کے لئے انہوں نے اپنے شوہر کے قصبے کو ترجیح دی ہے۔ مگر وہاں کے کچھ سیاسی نمائندے ان کے اعلیٰ ارادوں کے سامنے رکاوٹ ہیں۔ اپنے سیاسی معاملات کے لئے بلاوجہ اور بلاجواز مداخلت سے باز نہیں آتے۔ میں بہت اچھے منتظم اور اچھے دل والے وزیر اعلیٰ شہباز شریف سے اس کالج کے حالات کے لئے نشاندہی کروں گا۔ ان سے میری ملاقات ہوئی تو میں شہر کے نام نہاد جمہوری اور عوامی نمائندوں کی منفی کارروائیوں سے مطلع کروں گا۔ کالج کی چار دیواری ضروری ہے مگر اس کے لئے بھی ان لوگوں نے رکاوٹ ڈالی ہوئی ہے۔ میں آئندہ کسی کالم میں ان کے نام بھی ظاہر کروں گا اگر کسی قصبے کے لئے تعلیمی فروغ کا اہتمام ہو رہا ہے تو اس میں رکاوٹ نہیں ڈالنا چاہئے۔
حضور کو بچے پسند تھے۔ تو پھر ہمیں یہ غریب بچے کیوں پسند نہیں ہیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے ٹھیک کہا کہ ہمیں ان بچوں کے لئے سوچنا چاہئے۔ ڈاکٹر صاحب اس دنیا کو جنت بنانا چاہتے ہیں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ بچے جنت کے باشندے ہیں۔ علی پور چٹھہ کے لوگ بھی اٹھ کھڑے ہوں اور اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔!!!