عمران خاں کی کامیابی اور ناکامی کی اکلوتی وجہ

کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتنے والی پاکستانی ٹیم کے تقریباً سارے کھلاڑیوں نے اس فتح کی سلور جوبلی مناتے ہوئے اپنے کپتان عمران خاں کی دل کھول کر تعریف کی۔ انکی قائدانہ صلاحیتوں کو بڑی فراخدلی سے سراہا۔ انکی مردم شناسی اور کرکٹ کے رموز میں مہارت کے ساتھ ساتھ بڑی دور اندیشی سے اپنے ساتھیوں کی حوصلہ افزائی کرنے اور ان کی کسی حادثاتی غلطی کو نظرانداز کرنے کے کئی واقعات نوآموز کھلاڑیوں کے بین الاقوامی اہمیت کے کھلاڑی بننے کا موجب بنے۔ عمران خاں بھی اس موقع پر اپنی ٹیم کے ساتھیوں کی تعریف کرنے اور اپنی غلطی تسلیم کرنے میں بے پناہ دیانتدار اور صاف گو تھا۔ عمران خاں کے اسی کردار کو دیکھ کر انہی کالموں میں ’’سیاست میں ایک عمران خاں کی ضرورت‘‘ کے زیر عنوان کالم لکھا گیا جو بائیس سال چار ماہ پہلے 13 دسمبر 1994ء کو نوائے وقت میں شائع ہوا۔ عمران خاں سیاست میں تو آ گئے مگر کرکٹ والی کامیابی نہ مل سکی۔ شاید کرکٹ میں بھی وہ کامیابی نہ ملتی اگر عمران خاں کا نیوٹرل ایمپائر کا مطالبہ نہ مانا جاتا اور شاید اس نوع کی کامیابی سیاست میں مل جاتی اگر غیر جانبدار اور دیانتدار الیکشن کمیشن کا مطالبہ مان لیا جاتا۔ میں نے شاید کا لفظ لگا کر کامیابی کو انہی معنوں میں لیا ہے جس معنی میں ہمارے ہاں سیاست کے میدان میں کامیابی سمجھی جاتی ہے اور وہ ہے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنا۔ حالانکہ سیاست میں کامیابی کا یہ مفہوم بہت ہی محدود سوچ کی غمازی کرتا ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ کر بھی سیاست دان کامیاب نہ ہوئے اور اقتدار کی وادی سے دور بہت دور رہنے والے سیاستدان بھی کامیاب قرار دئیے گئے۔ کامیابی کے مروجہ معیار پر ہی بات کی جائے تو بھی عمران خاں اس معیار سے شاید اختلاف کرینگے کیونکہ کرکٹ میں اس نے جیت کی بجائے صحت مندانہ مقابلہ کرنے پر ہی زور دیا۔ عمران خاں کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ کرکٹ میں اپنی غلطیوں سے خود سیکھنا اور پھر وہ غلطی نہ دہرانا قرار پائی۔ یہ بات عمران خاں نے خود ہی کہی تھی۔ سیاست میں عمران خاں نے اپنی کامیابی کی ضامن اس وجہ کو بھلا دیا بلکہ کرکٹ میں اختیار کی جانے والی ساری احتیاطیں سیاست میں آ کر نظرانداز کر دیں۔ سیاست میں اگر وہ اپنا یہ ہنر آج بھی آزما لیں تو وہ ماضی کی ساری غلطیوں کا ازالہ کر سکتے ہیں۔ کھیل میں کھلاڑی سے ہی سیکھا جاتا ہے سیاستدان سے نہیں اور سیاست میں سیکھنے کے لئے کسی سیاستدان کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ اگر اسے محدود معنی پہنانے سے گریز کیا جائے تو میں بابائے قوم قائداعظم کا ایک واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں۔ قائداعظم 1936ء میں معروف اخبار سٹیسمین کا مطالعہ کر رہے ہیں ان کی نگاہ
"Through Muslim Eyes"کے عنوان سے لکھے ہوئے عین الملک کے کالم پر پڑی۔ کالم نویس جو اس اخبار میں پندرہ روزہ کالم لکھتا تھا بہت ہی غیر معروف تھا۔ قائد نے اس کا کالم پڑھا تو اس میں صداقت اور دلیل سے بات کرنے کے ہنر کو دل ہی دل میں سراہاپندرہ دنوں بعد جب اخبار میں یہ کالم آیا تو قائداعظم نے اسے پڑھنے کے بعد اخبار کے ایڈیٹر مسٹر مورے کو فون کیا اور پوچھا کہ کالم کس کا ہے۔ قائداعظم نے اس کالم کو ہندوستان کے مسلمانوں کی آواز قرار دیا اور الطاف حسین کو بلایا اس ملاقات کا ذکر الطاف حسین نے ڈان میں 26مئی 1968ء کو ایک مضمون ’’میں ڈان کا ایڈیٹر کیسے بنا؟‘‘ میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’قائداعظم جب اسلامیہ کالج چٹاگانگ میں طالب علموں کی یونین کو خطاب کرنے آئے میں وہاں استاد تھا۔ قائداعظم کی تقریر کا طلبا اور اساتذہ نے بہت گہرا اثر قبول کیا دوسرے روز مجھے پیغام ملا کہ قائداعظم اصفہانیوں کی کیمک سٹریٹ کی رہائش گاہ پر مجھے ملنا چاہتے ہیں جب میں انکے سامنے گیا مجھے سرتا پیر دیکھا اور فرمایا ’’آپ بہت اچھا کام کر رہے ہیں‘‘ وہ ’’سٹیسمین‘‘ میں میرے کالم کا حوالہ دے رہے تھے۔
قائداعظم نے مجھے بتایا کہ وہ کالم سے بہت متاثر ہیں اور انہوں نے میرے نام کا پتہ سٹیسمین کے ایڈیٹر مسٹر مورے سے لگایا تھا۔ میرے کالم کے بارے میں قائداعظم کے خیالات سے میرا حوصلہ بڑھا جب میں ان سے رخصت ہوا تو ایک تفاخرانہ عزم میرے ساتھ تھا‘‘
1938ء میں مسٹر مورے چھٹی پر گیا تو قائم مقام ایڈیٹر مسٹر ورڈز ورتھ نے ان کا کالم بند کر دیا اور ایک نیشنلسٹ مسلمان ہمایوں کبیر کو جو بعد میں نہرو کی کابینہ میں وزیر رہا اس نے ’’علم جہاں‘‘ کے عنوان سے مسافر کے قلمی نام سے کالم شروع کیا۔ قائداعظم کو اس کالم کے بند ہونے پر تشویش ہوئی۔ الطاف حسین نے 1937ء میں انٹرمیڈیٹو کالج ڈھاکہ کے پرنسپل سے ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز حکومت بنگال بن چکے تھے۔ وہ لکھتے ہیں‘ ’’1938ء کے اواخر میں سرکاری کام سے میں بمبئی گیا۔ وہاں قائداعظم سے انٹرویو کیلئے وقت مانگا۔ قائداعظم نے ملاقات کیلئے فوراً وقت دے دیا جب میں قائداعظم سے ملا تو انہوں نے پہلا سوال یہی پوچھا کہ میں نے سٹیسمین کا کالم بند کیوں کر دیا۔ میں نے وجوہ بتائیں تو قائداعظم نے فرمایا مسٹر مورے چھٹی سے واپس آ گیا ہے وہ اس سے خود ہی بات کرینگے ۔ جونہی میں کلکتہ واپس پہنچا مسٹر مورے نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ میں ’’دارالسلام‘‘ کے عنوان سے ’’شاہد‘‘ کے قلمی نام سے اپنا کالم شروع کر دوں۔ اب یہ کالم ہفتہ وار تھا۔‘‘ قائداعظم کی حوصلہ افزائی سے الطاف حسین کا قلم اور طاقتور ہو گیا اس لئے ڈان کے ایڈیٹر پوتھن جوزف(Pothan Joseph)کی ادارے سے علیحدگی کے بعد محمد حسین کو ڈان کے ایڈیٹر کی ذمہ داری سونپنے کے ساتھ ہی قائداعظم کی نگاہ انتخاب الطاف حسین پر پڑی۔ انہوں نے لیاقت علی خاں سے کہا کہ الطاف حسین کو یہ پیشکش کریں چنانچہ لیاقت علی خاں نے بنگال کے وزیر اعلیٰ خواجہ ناظم الدین کے ذریعے الطاف حسین کو ایک خط بھیجا جس میں قائداعظم کی طرف سے ڈان کا ایڈیٹر بننے کی پیشکش کی تھی۔
بات عمران خاں سے شروع ہوئی اور اس کالم پر ختم ہو گئی جو 13دسمبر 1994ء میں ’’سیاست میں ایک عمران خاں کی ضرورت‘‘ کے عنوان سے نوائے وقت میں شائع ہوا۔ عمران خاں وہ کالم آج بھی پڑھ کر اپنی سیاست میں کی جانے والی غلطیوں سے سبق سیکھ سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن