میں کالم نہ لکھ سکوں تو مجھے غیر حاضری کا احساس ہوتا ہے۔ میںنے بڑے عرصے تک روزانہ کالم لکھا ہے۔ میں اپنے دوستوں اور دوسروں کے کالم ضرور پڑھتا ہوں اور اپنا کالم بھی پڑھتا ہوں راولپنڈی آو¿ں تو پاکستان سے بے پناہ محبت کرنے والے نامور شاعرجلیل عالی سے ضرور ملتا ہوں اور بہت محترم شاعر اور ادیب پنڈی اسلام آباد میں موجود ہیں اب توبہت لوگ ہیں جوپنڈی گئے ہوئے ہیں مگر کہتے ہیں کہ میں اسلام آباد آیا ہوا ہوں۔ اسلام آباد اور راولپنڈی تقریباً ایک ہی شہرلگتے ہیں مگر دونوں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ یہ بہت زیادتی ہے پہلے پنڈی کو سنوارا جاتا اور پھر اسلام آباد بنایا جاتا۔ پنڈی پرانا کچھ کچھ پرانے لاہورکی طرح لگتا ہے مگر اسلام آباد نئے لاہور کی طرح بالکل نہیں لگتا۔ نئے لاہور میں کچھ کچھ پرانے لاہور کی نشانیاں ہیں۔
اسلام آباد بالکل وکھری ٹائپ کاشہرہے۔ اسلام آباد میں داخل ہوتے ہی کچھ لوگوں کو یہ گماں گزرتا ہے کہ ہم کسی دوسرے ملک میں آگئے ہیں۔ مثال کے لیے ہمارے پاس کچھ چیزیں ہیں مگر وہ بھی ایک ایک ہی ہیں۔ مثلاً سٹیل ملز‘ موٹروے مگر جو کچھ ہمارے پاس پہلے سے موجودتھا۔ ہم اسے بھی کچھ اور نہ بناسکے بلکہ کچھ بھی نہ بناسکے۔
ہم گوادر کا ذکر تو بہت کرتے ہیں مگر ہم نے اب تک اس کے لیے کیا کیا ہے؟ گلگت بلتستان کتنے خوبصورت منظروں سے بھرے ہوئے علاقے ہیں اگر ان جگہوں کی حالت بہتر کی ہوتی اور ان تک پہنچنے کے لیے خوبصورت سڑکیں ہوتیں تو لوگ یورپ وغیرہ میں جانے کی بجائے اپنے علاقوں کی طرف جاتے۔
ایک دوست جو تقریباً ساری دنیا دیکھ آیا اس نے سارا پاکستان نہیں دیکھا۔ اس نے یہ تسلیم کیا کہ پاکستان میں جتنے تفریحی اور خوبصورت علاقے ہیں۔ دنیا میں کہیں نہیں مگر وہاں تک جانا اتنا مشکل ہے اور پھر ضرورت کی چیزیں نہیں ملتیں نہ ٹھہرنے کو جگہیں ملتی ہیں۔ اب نئے پرانے لاہور کی بات ختم ہو رہی ہے اور لوگوں نے پنڈی اور اسلام آباد کو جڑواں شہر کہنا چھوڑ دیا ہے۔
اب ہم وہ لاہور کہاں سے لائیں جب شہر کی سڑکوں پر گھوما کرتا تھا۔ ہم بھی گورنمنٹ کالج کے نیو ہوسٹل سے نکل کر اس کے ساتھ ہو لیتے ہم بھی دیر دیر تک چلتے رہتے۔ کوئی تھکن وغیرہ نہ ہوتی ایک لگن ہمارے ساتھ ساتھ ہوتی اور ناصر کاظمی کی باتیں جو اس نے گہری چپ راتوں سے سیکھی تھیں۔
جلیل عالی سے گفتگو ہو رہی تھی۔ بتایا گیا کہ ایک جسٹس صاحب نے کسی بات چیت کے دوران کہہ دیا کہ ہمیں بھی سیاسی معاملات پر مقدمات نہیں سننا چاہئیں۔ ان فیصلوں پر بہت بحث و تکرار ہوتی ہے اور ملک کے اندر ناخوشگوار حالات پیدا ہوتے ہیں اور مقدمات کی طرف توجہ کم ہو پائی جو ہزاروں کی تعداد میں پڑے ہیں۔ اس کے بعد جج صاحب کیلئے ناخوشگوار حالات پیدا کر دئیے۔ ہمارے سینئر چیف رپورٹر خواجہ فرخ سعید نے بتائی۔
ریٹائر ہونے کے بعد ہر جج کیلئے ریفرنس ہوتاہے۔ جو باقاعدہ ایک الوداعی تقریب ہوتی ہے جس میں جج صاحب اپنے تجربات اور مشاہدات کے حوالے سے گفتگو کرتا ہے مگر جب جسٹس موصوف ریٹائر ہوئے تو انہیں الوداعی ریفرنس نہ دیا گیا۔ انہوں نے برا نہیں منایا مگر یہ خبر بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم باخبر تو ہوناچاہتے ہیں۔ ا ہل خبر نہیں ہوناچاہتے۔
نوائے وقت راولپنڈی کے ادبی ایڈیشن میں ہماری کالم نگار اور شاعرہ عائشہ مسعود نے معروف افسانہ نگار عذرا اصغر کے ساتھ بات چیت کی، یہ غیر رسمی انٹرویو بہت شاندار ہے۔ صاحب اقتدار پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس لئے میں نے کالم لکھنا چھوڑ دیا۔ ورنہ آج کل تقریباً ہر ادیب شاعر کسی نہ کسی اخبار میں کالم لکھ رہا ہے۔
٭٭٭٭٭