ایک ماہ بعد جنوری 1952ء میں ملک میں گندم کی قیمت میں اضافہ ہوگیا جبکہ خوردنی اجناس مارکیٹ سے غائب کر دی گئیں۔ 17فروری کو لاہور میں جلسے جلوسوں کے بعد حکومت نے گندم کفالت سے استعمال کرنے کے احکامات صادر کر دیئے۔ ملک میں قحط کا سا ماحول بنا دیا گیا۔ احتجاجی سلسلے کو اس وقت آگ دکھائی گئی جب 7جنوری 1953ء کو کراچی میں طلباء نے ایک بڑا جلوس نکالا جس پر پولیس نے لاٹھی چارج کردیا۔
اگلے روز طلباء مزید مشتعل ہوکر سڑکوں پر نکلے تو پولیس نے گولی چلا دی اور 8معصوم طلباء کو زندگی سے محروم کر دیا جبکہ متعدد طلباء زخمی ہوئے۔ پورے ملک میں گورنر جنرل سے مطالبہ ہونے لگا کہ وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو برطرف کیا جائے۔ آنیوالے دنوں میں مزید احتجاجی جلوسوں کے دوران انسانی خون بہتا رہا اور مرنے والوں کی تعداد 27 ہوگئی۔ کراچی میں کرفیو لگانا پڑا۔ وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو رپورٹ دی گئی کہ اس ہنگامے میں سندھ مسلم لیگ کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ ایوب کھوڑو اور صوبائی وزیر قاضی فضل اللہ ملوث ہیں جس پر انہوں نے ان دونوں رہنمائوں کو بالترتیب 6 اور 4سال کیلئے تمام سرکاری عہدوں اور اسمبلی کی رکنیت کیلئے نااہل قرار دیدیا۔ انکے اس اقدام سے بہتری کیا آتی۔ پنجاب میں ٹیچرز یونین پنجاب نے یکم فروری سے مکمل ہڑتال کا اعلان کر دیا جبکہ کراچی بندرگاہ پر ٹرسٹ یونین کے مزدوروں نے ہڑتال کر دی۔ ادھر وزیراعلیٰ پنجاب ممتاز دولتانہ بھی وزیراعظم کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوگئے۔ وزیراعظم نے انہیں مسلم لیگ پنجاب کی صدارت اور وزیراعلیٰ کے عہدے سے ہٹا دیا اور ملک فیروزخان نون کو وزیراعلیٰ پنجاب مقرر کر دیا۔ سازشیں رنگ لائیں اور 17اپریل 1953ء کو گورنر جنرل ملک غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کو وزیراعظم کے عہدے سے برطرف کر دیا۔ خواجہ ناظم الدین اس پر دلبرداشتہ ہوگئے اور مسلم لیگ کی صدارت سے بھی استعفیٰ دیدیا۔ ان جیسا شریف النفس انسان اسکے بعد لگ بھگ دس سال زندہ رہا لیکن سیاست سے عملاً کنارہ کش ہی رہا۔ گورنر جنرل ملک غلام محمد نے امریکہ میں پاکستان کے سفیر محمدعلی بوگرہ کو پاکستان کا وزیراعظم نامزد کر دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان صاحب نے وزارت عظمیٰ کی ذمہ داری قبول کرلی۔ سو انکی جو کابینہ بنی وہ اس لحاظ سے دلچسپ تھی کہ اس میں پاک فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان نے وزیر دفاع کا حلف اٹھایا۔ آگے چل کر جنرل ایوب خان فیلڈ مارشل بنے‘ محمد علی بوگرہ مسلم لیگ کے صدر بھی بن گئے۔ انکے مقابلے پر ممتاز مسلم لیگی رہنما قاضی محمد عیسیٰ نے صدارت کا الیکشن لڑا لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ محمدعلی بوگرہ نے بہرحال کچھ اچھے کام کیے جن میں پارٹی کی تنظیم نو‘ پرانے مسلم لیگیوں کو مسلم لیگ میں واپس لانا‘ قومی ترانہ کی تکمیل اور بالخصوص پاکستان کے آئین سازی کے عمل کو لگ بھگ مکمل کرلینا اور یہی کام نہ صرف انکی بلکہ آئین ساز اسمبلی کوگھر بھجوانے کا سبب بنا۔ آئین کیلئے ’’محمدعلی بوگرہ فارمولہ‘‘ ایک تاریخی دستاویز ہے۔ اس پر پھر کبھی ضرور تفصیلاً بات ہوگی لیکن صرف اتنا کہنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ گورنر جنرل ملک غلام محمد آئین ساز اسمبلی کی طرف سے گورنر جنرل کے اختیارات کم کرنے کی ترمیم پر ناراض ہوگئے اور مشرقی پاکستان میں مسلم لیگ کی انتخابی شکست کو بہانہ بناکر آئین ساز اسمبلی کو توڑ دیا اور نئی دستور ساز اسمبلی بنا دی۔ پاکستان کی سیاسی کہانی کے اس دور کے دلخراش واقعات کو کسی اور وقت کیلئے اٹھاتے ہوئے ہم واپس آج کی دنیا میں آتے ہیں۔ ہماری قوم آج جس لولی لنگڑی جمہوریت سے استفادہ کر رہی ہے‘ ہمارے اداروں اور سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ اس کو مستحکم کرنے کیلئے اپنا اپنا کردار ادا کریں نہ کہ اس طرف بڑھا جائے جس بارے میں افواہیں ہیں کہ اتفاق رائے کی نگران حکومت قائم نہیں ہوسکے گی۔ نگران حکومت قومی حکومت میں تبدیل ہو جائیگی‘ پہلے احتساب اور پھر انتخاب کا گھسا پٹا فارمولا لایا جائیگا۔ خدا نہ کرے‘ ایسا کچھ ہوا تو پاکستان میں نہ صرف جمہوریت کا مستقبل تاریک ہو جائیگا بلکہ پاکستان خوشحالی کی منزل سے دور ہو جائیگا۔ (ختم شد)