جبار مرزا‘ تاریخ کی گود سچائیوں سے بھرنے والا مؤرخ

جبار مرزا کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’’نشان امتیاز‘‘ نے میرے ذہن و ایقان کے دریچوں میں ایک بار پھر محسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان کے ساتھ عقیدت و محبت کے شادیانے بجا دئیے‘ کون کہتا ہے ہمارا مؤرخ سچ نہیں لکھتا‘ میرے لئے کیا یہ طمانیت کم ہے کہ جبار مرزا سمیت بہت سے لکھاری ہمیشہ سے اپنے قلم کو سچ کی اشیرباد دیتے رہے ہیں۔ محسن پاکستان کے ساتھ میری محبت بہت ازلی ہے‘ 1980ء کی دہائی کے اوائل میں میری کتاب ’’روزن روزن دستک‘‘ چھپی تھی‘ جس میں‘ میں نے ایک نثرپارہ ڈاکٹر صاحب کے لئے اس طرح لکھا کہ میری عقیدتیں جھوم جھوم کر نوک قلم پر آ گئی تھیں‘ کتاب کا پہلا نسخہ میں نے کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری کے پتے پر ڈاکٹر قدیر کی نذر کیا تو فوراً جوابی خط آ گیا‘ جس میں مجھ ایسے نوآموز لکھاری کی حوصلہ افزائی اور کتاب کے اسلوب و نگارش پر بھی خوبصورت رائے کا اظہار کیا گیا تھا۔ وہ خط آج بھی میرے ذاتی نوادرات میں شامل ہے‘ بس وہ دن اور آج کا دن‘ محسن پاکستان کے ساتھ میرا لگاؤ دوچند ہی ہوتا رہا‘ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ عقیدت کے اظہار میں میرے ادارے کے سربراہ مجید نظامی جنت مکانی بھی شریک تھے‘ میں گاہے بگاہے نوائے وقت کی تحریروں میں ڈاکٹر صاحب سے محبتوں کا دم بھرتا تو مرحوم مجید نظامی اسے ستائش کی نظر سے دیکھا کرتے تھے۔ جبار مرزا درست کہتے ہیں جب پرویز مشرف دور میں محسن پاکستان کا عرصہ حیات تنگ کیا گیا تو میں بہت کبیدہ خاطر تھا۔ نوائے وقت کی سطح پر خود مجید نظامی صاحب اس صورت حالات پر تشویش میں مبتلا تھے‘ لہذا اپنے اخبار میں جو کچھ ہو سکا ہم نے کیا اور محسن پاکستان کی حمایت میں آواز اٹھاتے رہے‘ تاہم میرا خیال بھی محترم جبار مرزا کی طرح یہی تھا کہ محسن پاکستان کے حمایتی لکھاریوں کو باہم یکجا ہو کر ان کے حق میں نعرہء مستانہ بلند کرنا چاہئے‘ اس مقصد کے حصول کی خاطر میں نے اپنے تیئں بہت سے اہل قلم کے ساتھ روابط استوار کئے‘ جن میں جبار مرزا سرفہرست تھے۔ ان سے میں نے گزارش کی تھی کہ ڈاکٹر صاحب سے عقیدت رکھنے والے لکھاریوں کے ایک نمائندہ وفد کی ان کے ممدوح سے ملاقات کا اہتمام فرما دیں‘ میں خود اس برے وقت میں محسن پاکستان سے مل کر انہیں حوصلہ دینا چاہتا تھا لیکن دوسری طرف حالات کی ستم ظریفی کہیں یا سیاستدانوں کی منافقت کہ قدآور شخصیات میں محترم مجید نظامی‘ نصرت مرزا اور عبد القادر حسن کے علاوہ کوئی اور ان کے ساتھ کھڑا دکھائی نہیں دیتا تھا۔ اس وقت کے صدر مملکت محترم رفیق تارڑ نے قصر صدارت سے دم رخصت پرویز مشرف کے سیلیوٹ کرنے پر منہ پھیر کر جس نفرت کا اظہار کیا اس کی تصویر کشی کرتے ہوئے جبار مرزا نے اپنے قلم کے دھنی ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔ انہوں نے برے دنوں کی کہانی‘ کچھ اپنی اور کچھ محسن پاکستان کی زبانی رقم کرتے ہوئے جس ابلاغ اور پرکاری کا مظاہرہ کیا‘ وہ اپنی مثال آپ ہے۔ کتاب ’’نشان امتیاز‘‘ میں سب سے اہم باب ’’آپریشن ہیرو سے زیرو اور سپریم کورٹ‘‘ ہے اور پھر ایک حقیقت یہ بھی جبار مرزا کی زبانی کہ پرویز مشرف کے دور اقتدار کے بعد ان کو خدا حافظ کہنے والوں میں شیخ رشید کو ہی تقدیم حاصل ہے۔ رہ گئی بات احتشام ضمیر کی تو یہاں بھی جبار مرزا نے پنڈی وال یاری نبھانے والا معاملہ کیا ہے‘ یاری نبھانا جبار مرزا سے زیادہ کسی کو نہیں آتا‘ ورنہ احتشام ضمیر نے کسی دور میں آئی ایس آئی کا سیاسی ونگ بھی سنبھالا ہوا تھا۔ جبار مرزا کے خداترس اور شریف آدمی ہونے میں کیا شک ہے کہ بقول احتشام ضمیر وہ کوئی بڑی سے بڑی بات بھی افشاء نہیں کرتے تھے۔ احتشام ضمیر اب دنیا میں نہیں ہیں‘ ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔
خود مجھے ایک مرتبہ ڈاکٹر عبد القدیر خان نے بتایا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد غلام اسحاق خان نے سربراہان مملکت میں سب سے زیادہ ایٹمی منصوبے کی پاسداری اور معاونت کی‘ جبار مرزا کی کتاب ’’نشان امتیاز‘‘ میں زاہد ملک کے نام غلام اسحاق خان کے خط سے بھی متذکرہ حقیقت واضح ہوتی ہے۔ دوسرے باب میں محسن پاکستان کی پرویز مشرف سے گرما گرمی کی ذیل میں بہت سے حقائق پہلی مرتبہ تاریخ کے سپرد ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں یہ حقیقت کہ پرویز مشرف قصر صدارت میں زبردستی گھسنے سے پہلے ہی محسن پاکستان کے بدترین مخالفین میں سے تھے‘ جعفر از بنگال‘ صادق از دکن والی بات ہے‘ اور یہ دشمنی سراسر بے بنیاد اور پاگل پن بھی تھی‘ وہ اپنے خود ساختہ دور صدارت میں محسن پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا کر ہر حال میں انہیں امریکہ کے سپرد کرنا چاہتے تھے لیکن یہاں ڈاکٹر عبد القدیر خان کے اللہ پر ایمان و ایقان کی بے پناہ قوت آڑے آ گئی اور پرویز مشرف اپنے منصوبے میں ناکام رہے۔ تاریخ کے اس دوراہے پر جبار مرزا نے وہ تمام تفصیلات اظہر من الشمس کر دی ہیں‘ جن سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح محسن پاکستان نے جابر اور آمر حکمران کے سامنے کلمات حق بلند کئے‘ جس کے نتیجے میں ان پر عتاب در عتاب نازل ہوتے رہے۔ اس حوالے سے جبار مرزا کے قلم کی جولانیاں دیکھنے اور محسوس کرنے کے لائق ہیں۔ ذراا دیکھیے: ’’4 فروری 2004ء قربانی کی عید کا تیسرا روز تھا‘ محسن پاکستان کا پاکستان پر ایک اور احسان کا دن‘ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد پاکستان کی المناک تاریخ کا دوسرا بڑا حادثہ‘ جنرل پرویز مشرف جو ڈرتے ورتے کسی سے نہیں‘ اس روز کمانڈو کی وردی پہنے ترنگ میں براجمان تھے‘ جبکہ محسن پاکستان خود کو قربان کرنے آرمی ہاؤس راولپنڈی کے صدارتی کیمپ آفس کی قربان گاہ میں پورے وقار کے ساتھ بیٹھے تھے‘ وہ عجب ڈھیٹ لمحات تھے کہ ناانصافی بھی منہ چھپاتی پھر رہی تھی۔ ایک طرف پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا ہیرو اور دوسری جانب کارگل کا ناکام مہم جو تھا۔ ایک کے سینے پر دو نشان امتیاز تھے اور دوسرے کے سر تین ہزار سے زائد مجاہدین اور این ایل آئی کے افسروں اور جوانوں کا خون تھا‘ وہ ڈی بریفنگ کے لمحات تھے‘ حیرت ہے پاکستان کو دولخت کرنے والوں کی ڈی بریفنگ نہ ہوئی‘ بلکہ انہیں پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر لحد میں اتارا گیا‘ کارگل کے ناکام منصوبہ ساز کی کسی نے ڈی بریفنگ نہ کی اور پاکستان کو عالم اسلام میں معتبر کرنے والے کی ڈی بریفنگ …‘‘ اب اس کے بعد کیا کہیں؟ سوائے اس کے کہ ہماری تاریخ سیاہ کاغذ پر سیاہ روشنائی سے لکھی ہوئی ہم تک پہنچی ہے اور اب اگر جبار مرزا نے اسے سفید کاغذ پر سیاہ روشنائی سے تحریر کیا ہے تو اس کے قرطاس و قلم کو سلام … سچ لکھ کر اس نے خود کو ہی نہیں 20 کروڑ پاکستانیوں کو منوا لیا ہے‘ جن کے دل میں محسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان مٹی کے دیئے کی طرح روشن ہیں اور ہمیشہ جگمگ کرتے رہیں گے۔

ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی

ای پیپر دی نیشن