لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائیکورٹ نے مقررہ وقت میں انکوائری مکمل نہ ہونے پر نیب پر سخت ناراضی کا اظہار کیا ہے اور ریمارکس دیئے کہ نیب کو یہ اختیار تو نہیں کہ انکوائری مکمل یا ریفرنس دائر ہونے سے پہلے ہی کسی ملزم کو الٹا لٹکائے رکھے۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس ملک شہزاد احمد خان اور جسٹس وقاص رئوف مرزا پر مشتمل دو رکنی بنچ نے پراپرٹی ڈیلر ملک مومن کی درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار کے وکیل اسد منظور بٹ نے نشاندہی کی کہ نیب عالم ہائوسنگ سوسائٹی کیخلاف انکوائری میں صرف ایک ہی ڈیلر کو بار بار بلا رہا ہے اور خدشہ ہے کہ نیب انکوائری کے بہانے بلا کر درخواستگزار کو گرفتار کر لے گا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس وقاص رؤف مرزا نے افسوس کا اظہار کیا کہ نیب کے تفتیشی افسر وقت پر تفتیش مکمل نہیں کرتے نیب کے وکیل نے بتایا کہ ایس او پیز کے مطابق 4 ماہ میں انکوائری مکمل کرنا ہوتی ہے۔ جسٹس وقاص روف مرزا نے باور کرایا کہ کتنی انکوائریاں ہیں جو نیب نے 4 ماہ میں مکمل کی ہیں۔ نیب کے وکیل نے بتایا کہ فی الحال ملزم کی گرفتاری درکار نہیں ہے۔ جس پر بنچ نے ریمارکس دیئے کہ اگر یہاں عدالت سے نکلتے ہی گرفتاری درکار ہو گئی تو پھر ملزم کیا کرے گا۔ فاضل جج نے ریمارکس دیئے کہ نیب یہ بھی واضح طور پر بتائے کہ کس مرحلے پر کسی ملزم کی گرفتاری درکار ہوتی ہے۔ درخواست گزار کے وکیل نے نشاندہی کی کہ نیب آج تک ایس او پیز پر چل رہا ہے، نیب کے وکیل نے جواب دیا کہ قانون سازی کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے۔ بنچ کے رکن نے ہدایت کی کہ عدالت کی معاونت کی جائے کہ نیب کی انکوائری، تفتیش اور ریفرنس دائر کرنے کا کتنا ٹائم فریم ہوتا ہے۔ فاضل جج نے بارو کرایا کہ اگر عدالت مطمئن نہ ہوئی تو پراسیکیوٹر جنرل نیب کو بھی طلب کیا جا سکتا ہے۔ درخواست پر مزید کارروائی 2 مئی کو ہوگی۔