لاک ڈاون کے بعد کی مشکلات ایک جائزہ

سب سے پہلے چودہ اپریل کو پنجاب میں لاک ڈاون اگرچہ ختم ہونالیکن سندھ کی حکومت نے مریضوں کی متوقع یا زیادہ تعداد میں بڑھنے کے خدشے کے پیش نظر،لاک ڈاون میں توسیع اور پنجاب حکومت بھی جزوی یا حفاظتی
جو بھی زیادہ سخت اقدامات ہو سکتے ہیںوہ اٹھا سکتی ہے۔وجہ تسمیہ اس کی اس کے علاوہ کیا ہوسکتی ہے،کہ کرونا کے کیس جو ابھی لاک ڈاون کے باعث باہر نہیں آے،ان کی تعداد کہیں اچانک بہت زیادہ نہ ہو جائے۔کیونک امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک بھی اس مرض سے ہلاکتون کی تعداد ،جو کہ اب تک تیرہ ہزار تک پہنچ چکی ہے،تو ہمارے ملک میں بھی کہیں زیادہ،ہلاکتیں ،احتیاطی تدابیر کی کمی کی وجہ سے نہ ہوجائیں۔ایک جائزے کے مطابق،سہولیات کے لہاظ سے سیریس مریضوں کے لئے،درکار وینٹی لیٹرز اوور پیپھٹرے میں اندر تک ڈالنے کے لیے ضروری ٹیوبیں وادویات بیہوشی وغیرہ بھی کم ہیں۔ہمارے پاس ونٹلیٹیرز کی موجودہ تعداد پبلک سیکٹر میں دوہزار دو سو سے کر بیرون ملک سے آنیوالے آرڈروں کے بعد تعدادٹوٹل سات ہزار تک ہو سکتی ہے جبکہ ا مریکا میں ایک لاکھ تیس ہزار تک اور یورپ میں بھی یہ اس تعداد کے قریب ہوگی اور وہ اب خود بناکر یا دوسرے ملکوں سے بنوا کر اپنے ہسپتالوں کو مہیا کرنے پر پورا زور لگارہے ہیں۔۔اسی طرح بیڈز کی تعداد ہمارے ہاں اگرچہ ببیس ،پچیس ہزار بتائی جارہی ہے،لیکن عملی طور پر کیا ہم اتنے ہزاروں مریضوں کا بوجھ اٹھاسکیں کیوںکہ ہمارے پاس بقول اسد عمر کے،ٹیسٹ کرنے کے استعداد اپریل کے آخر تک چھہ ہزار فی یوم ہوگی ۔ اور ورلڈ ان ڈیٹا کے مطابق ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق ہر ایک ہزار افراد کا ٹیسٹ کرنے کا ڈیٹا اوسطاکچھ اس طرح ہے کہ۔ ڈ بلیو ایچ او کے مطابق اکٹھی اور ماس ٹیس لیول پر اگر ٹیسٹ نہ کیے گئے ،تو کرونا اندر ہی اندر تیزی سے پھیلے گا،اٹلی،یوکے،سپین،امریکا،جرمنی ،آئر لینڈ، آسٹریلیا، آسٹریا، بحرین، ڈینمارک، کزیچ، ایسٹونیا،فرانس،ناروے میں پانچ سے بیس ٹیسٹ ہوے ہر ایک ہزار لوگوںکے بدلے میں ،جبکہ پاکستان،انڈیا،میں اوسط ایک سے بھی کم ،بلکہ اعشاریہ میںہے۔امریکا سمیت کچھ یورپی ممالک میں اب گھر پریا گاڑی چلاتے ہوے ٹیسٹ کی سہولت بھی دیکھی جارہی ہے۔۔
ہمارے پاس فیلڈ ہسپتال ،جو ایسے مریضوں کے لیے ضروری ہوتے ہیں،تا کہ صرف کرونا کے مریض ہی وہاں ہوں۔اور دوسرے مریضوں کو یہ منتقل نہ ہو ۔قارئین کو یاد کراتا جاوئں کے اٹلی کی حکومت نے ،انہی کرونا کے مریضوں کے لیے مختص فیلڈہسپتال میں مریض نہیں شفٹ کیے تھے ،جس کی وجہ سے اور لوگوں میں بھی یہ مرض پھیل گیا۔،یہ فیلڈ ہسپتال ابھی ہماری آبادی کے تناسب سے انتہائی کم ہیں۔
اس لیے سب سے پہلے توکرونا کے لیے علیحدہ فیلڈ ہسپتال وقت کی اہم ضرورت ہے پھر اس کے علاوہ قابل اعتماد ٹیسٹوں کی کٹس بھی اشدضروری ہیں۔ امریکا وغیرہ میں بھی میڈیکل عملے کو حفاظتی سامان کی کمی کا سامناہے جبکہ ہمارے جیسے ممالک میں تو میڈیکل عملے کے پاس تو معیاری حفاظتی کٹس ،ماسک،گلووز،شیلڈز، تک نہیں ،جس کی تازو مثال کوئٹہ میں جب ڈاکٹروں نے ان کی ڈیمانڈ کی،تو ان پر تشدد کیا گیا اور تھانے میں ان پر پرچے کاٹے گئے۔ہر ذی شعور آدمی یہ بخوبی سمجھ سکتا ہے اور آپ مختلف چینلوں پر دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ بیرون ملک میڈیکل عملہ کو اس لئے اہمیت اور ان کی حفاظت یقینی بنائی جاتی ہے، کیونکہ انہی نے حقیقی معنوں میں مریضوں کی جان ،خدا کے بعدبچانی ہوتی ہے۔ لفظوں میں نہیں ،بلکہ عملی طور پران میڈیکل کے لوگوں کی ضروریات پوری کی جانی ضروری ہیں،نہ کہ ان پر تشدد جو دنیا میں ہماری جگ ہنسائی کا باعث بنے۔سو لاک ڈاون سے پہلے،ہمیں یہ علم ہونا چاہیے کہ نہ ہمارے پاس وینٹیلیٹرز،نہ ہمارے پاس عملے کیے لیے حفاظتی کٹس،اور نہ ہی علیحدہ کرونا کے لیے فیلڈ ہسپتال ہیں اور نہ ہی اکیس کروڑ عوام کے ٹیسٹ کے لیے کٹس ہیں ۔ٹیلی میڈیسن کا آغاز، اگر،چہ لاہور کے بعد گوجرانوالہ میں ڈاکٹر بختیار کی کاوش اور کوششوں سے شروع ہوگیا ہے جوکہ لاک ڈاون میں انتہائی سودمندہے اور کافی لوگوں کو فری مشورے دئیے جا رہے ہیں،جوکہ لاک ڈاون میں لوگوں کو گھر میں رہنے میں آسانی اور علاج کی سہولت بھی مل رہی ہے لیکن دوسرے بہت سے شہروں میں ابھی تک اس سہولت پر عمل نہیں ہو رہا۔اس لیے اگر لاک ڈاؤن کم یا ختم کر دیں گے،تو پھر جب عوام باہر نکلیں گے وتو ہم پہلے سے بہترآہستہ آہستہ ٹیسٹ کرنے کی پوزیشن میں آ جائیں گے اور ہمیں کروناچیلنج کی شدت کا بھی صحیح اندازہ ہو سکے گا۔
اگر ہم دیہاڑی داروں کو ضروری اشیا پہنچانے میں کامیاب ہوگیے، تو پھر ہم کافی حدتک کر ونا کا سامنا کر نے کے قابل ہوسکیں گے۔خوش قسمتی سے جو ہمیں یہ چند ہفتے یورپ سے پہلے مل گئے ہیں،اس میں ابھی ہم کچھ تشخیصی کٹس،حفاظتی آلات و غیرہ و فیلڈ ہسپتال حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں تا کہ عام عوام کے اسی پیمانے پر روزانہ ہزاورں کی تعداد میں قابل اعتمادٹیسٹ کر سکیں۔ہمیں جلدی سے جلدی کرونا کے ٹیسٹ کرنے کی حقیقی صلاحیت کو جلدی بڑھانا ہے۔ قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں ٹیسٹوں کی تعداد چھہ سے بیس ہزار روزانہ کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔کیونکہ ہر کرونا کے شکار کے لیے، ہمارے پاس وینٹیلیٹر موجود نہیں ہوسکے گا۔ قارئین کی اطلاع کیے لیے ،ایک وینٹیلیٹر کی قیمت پچاس لاکھ سے اوپر ہے جو امریکا جیسا ملک بھی خرچ برداشت نہیں کر رہا۔اس لیے عوام ایک دوسرے سے دور رہیں اور راشن وغیرہ سپلائی کا ہر قیمت پر ،ہنگامی بنیاد پر بندوبست ہوجائے ،تو پھر اس وبا سے کا مقابلہ ہوسکے گا۔

ای پیپر دی نیشن