موبائل اور فیس بک، جدید سہولت یا پریشانی

Apr 12, 2020

میاں غلام مرتضیٰ

موبائل اور فیس بک کنکشن لازم و ملزوم ہو چکے ہیں۔ چند سال پہلے تک فیس بک تک کی سہولت کے بارے میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ چھوٹے بچوں اور بزرگوں سمیت سبھی اس شوق میں مبتلا ہوکر اپنا بیشتر وقت موبائل ہاتھ میں پکڑے دنیا اور مافیہا سے بے خبر ہوں گے۔ حیرت ہوتی ہے کہ سخت بھوک لگی ہوگی، سامنے پسندیدہ کھانا پڑا ہوتا ہے اور وگ ہیں کہ سب کچھ بھول کر موبائل کے پروگرام میں منہمک اور کھوئے ہوئے ہوتے ہیں۔ انتہا یہ ہے کہ کئی خبریں آچکی ہیں۔ فلاں شہر میں نوجوان یا بوڑھا شخص موبائل سنتے یا میسجنگ کرتے ہوئے ٹرین کی زد میں آکر زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھا۔ کئی واقعات ایسے بھی پیش آئے ہیں کہ موبائل سکرین پر نظریں ہونے اور انگلیوں سے میسجز کرتے ہوئے لوگ بہتے ہوئے سیوریج کے گندے پانی میں گرگئے یا سڑک پر کسی ٹریفک حادثے کا شکار ہوگئے۔ لوگ گھر میں پہنچ کر بھی بیوی اور بچوں سے بات چیت کی بجائے موبائل میں گم رہتے ہیں۔ جن گھروں میں بیویاں اور بچے بھی موبائل کی لت میں مبتلا ہوتے ہیں وہاں تو شور، ہنگامہ اور لڑائی جھگڑا نہیں ہوتا مگر جہاں صورتحال مختلف ہوتی ہے تو بیوی شور چاتے ہوئے شوہر کے ہاتھ سے موبائل چھین کر پھینکنے کی کوشش کرتی ہے۔ بہت سی خواتین تو موبائل کو سوتن قرار دینے لگی ہیں۔ ماں باپ الگ ناراضی اور شکوہ شکایت کرتے ہیں کہ بیٹے بیٹی یا بہو کو ان سے بات کرنے کی فرصت ہی نہیں۔ جب سے سیلفی کی سہولت ملی ہے، سنگین واقعات بڑھ گئے ہیں۔ آئے روز سنتے ہیں کہ سیلفی لیتے ہوئے لوگ نہر اور دریا میں گرگئے یا پہاڑ سے گر گئے اور موت کے منہ میں چلے گئے۔ کئی ملکوں میں تفریحی اور تاریخی مقامات پر سیلفی لیتے ہوئے لوگ اونچی عمارتوں سے نیچے گر کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ غرض موبائل کے حوالے سے تمام سہولتوں کے باوجود شکایات بہت ہیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ موبائل اور فیس بک کنکشن جسم اور روح بن چکے ہیں۔ جس کے پاس وبائل نہیں ہوتا، ایسے لوگ کسی اور ہی سوسائٹی میں رہنے والا فرد قرار دیتے ہیں۔ موبائل کے بارے میں سب سے زیادہ شکایت یہ ہے کہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے سے دن رات میسجز کرتے ہیں۔
ساری ساری رات باتیں کرتے رہتے ہیں۔ اس کے لئے دن کا چین اور راتوں کی نیند حرام کر دیتے ہیں۔ یہ بات ماننا پڑے گی کہ موبائل کے خلاف لاکھ شکائتیں ہوں، لیکن اس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یہ کہا جاتا ہے کہ اس سہولت کا اگر غلط استعمال کیا جائے تو اس میں موبائل کے استعمال پر تنقید نہیں ہونی چاہئیے۔ ایک واقعہ قارئین کی خدمت میں پیش ہے کہ پنجاب کانسٹیبلری میں دو سال ملازمت مکمل کرنے والے 70 ملازمین نے فیس بک کے ذریعے لاہور کے ایس ایس پی ایڈمنسٹریشن کو ایک پیغام بھیجا کہ پنجاب کانسٹبلری میں ہر ملازم کے لئے ضروری ہے کہ وہ دو سال سپیشل ڈیوٹی انجام دیں۔ بہت سے ملازمین اس شرط کو پورا کر چکے ہیں۔ اصولی طور پر انہیں واپس ان کے اضلاع میں تعینات کیا جائے تاکہ وہ سہولت اور ذہنی اطمینان کے ساتھ ملازمت کے فرائض انجام دیں لیکن متعلقہ حکام کی عدم توجہی کے سبب لاہور کے ۷۰ ملازمین ایسے ہیں جو دو سال مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد بھی واپس اپنے اضلاع میں تعینات نہیں کئے گئے۔ فیس بک پر یہ پیغام سی سی پی او نے پڑھ لیا تو انہوں نے فوری نوٹس لیتے ہوئے اس زیادتی کا ازالہ کرنے کے لئے ایس ایس پی ایڈمنسٹریشن کو احکامات جاری کئے کہ جو ملازمین دو سالہ مدت ملازمت پوری کر چکے ہیں انہیں ضلاع میں فوری سپیشل ڈیوٹی سے واپس بلا کر ان کے اضلاع میں تعینات کیا جائے۔ یوں پریشان حال پنجاب کانسٹیبلری کے 70 ملازمین کی فریاد سن لی گئی اور سوشل میڈیا پر موجود پیغام کے ذریعے ان کا مسئلہ حل ہوا۔ کیونکہ ان ملازمین کے متبادل نفری بلانے کے احکامات جاری کر دئیے گئے۔ کہتے ہیں کہ ہر پریشانی کے بعد راحت ہوتی ہے۔ پنجاب کانسٹیبلری کے ملازمین کی پریشانی کا خاتمہ موبائل کے سوشل میڈیا پر پیغام سے ہوا۔ عام طورپر یہ سوچا بھی نہیں جاتا کہ اعلی حکام ایسے پیغامات کا نوٹس لیں گے لیکن بظاہر یہ ناممکن بات ممکن ہوگئی۔ موبائل اور فیس بک پروگراموں پر تنقید تو کی جاتی ہے لیکن اس کے فوائد اور سہولتوں پر بھی نظر ڈالی جائے تو تمام تر شکایات کے باوجود اطمینان بخشپہلو یہ ہے کہ موبائل اور فیس بک پروگرام جدید ترقی یافتہ دور کی ایسی سہولت ہے جس کی وجہ سے لوگوں کی آسانیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ احمد فراز کا شعر یاد آتا ہے۔
سب اپنے اپنے سلیقے سے منتظر اس کے
کسی کو تشکر، کسی کو شکائیتیں کرئیں
ٹیکنالوجی کا دور ہے اور اس سے ہر کوئی مستفید ہو رہا ہے۔ ہونا یہ چاہئیے کہ جو سہولت حاصل ہوئی ہے، اس کا صحیح طور پر فائدہ اٹھایا، اس کے مضر اور نقصان دہ استعمال سے پرہیز کیا جائے تاکہ ٹیکنالوجی کے مقاصد بہتر طریقے سے پورے ہوسکیں۔ بنیادی طور پر لوگوں کے رویے اور سوچ مثبت اور پرامن ہوں تو شکایات پیدا نہ ہوں۔ اگر چھوٹی موٹی کائتیں پیدا ہو بھی جائیں، ان کی روک تھام آسان ہوگی۔ اگر ایسا ہوجائے تو موبائل اور فیس بک پروگراموں کے خلاف آوازیں مدہم ہو جائیں گی۔

مزیدخبریں