چودھری پرویز الٰہی کی رہائش گاہ پر خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق سے بیس سال بعد ہونے والی ملاقات مستقبل کے سیاسی منظر نامے میں اہمیت ضرور رکھتی ہے۔ فوری طور پر بھلے اس کے اثرات سامنے نہ آئیں لیکن مسلم لیگ کے دو دھڑوں کے درمیان سیاسی اتحاد ضرور ہو سکتا ہے۔ چودھری برادران ذاتی حیثیت میں بدلے کی سیاست کے بجائے اخلاقی قدروں کو اہمیت دیتے ہوئے سیاسی فیصلے کرتے ہیں۔ اس ملاقات میں ماضی کے واقعات کا ذکر بھی ہوا۔ چودھری پرویز الٰہی نے کہا کہ ہم نے حمزہ شہباز اور سلمان رفیق کے پروڈکشن آرڈرجاری کئے لیکن مونس الٰہی کے معاملے پر صورت حال مختلف تھی۔ جواب میں سعد رفیق نے کہا کہ کوتاہیاں، غلطیاں ہوتی رہتی ہیں۔ خواجہ سعد رفیق نے اعتراف کیا کہ پرویز الٰہی دباؤ کا مقابلہ کرتے ہوئے حمزہ شہباز شریف اور خواجہ سلمان رفیق کے پروڈکشن آرڈرز جاری کرتے رہے ہیں۔
دونوں خاندانوں کے دیرینہ تعلقات رہے ہیں۔ ان کے بزرگوں کے بھی قریبی تعلقات تھے اقتدار کی سیاست اتنی ظالم چیز ہے کہ انتہائی قریبی تعلقات کے باوجود بیس برس کے بعد چودھری پرویز الٰہی اور خواجہ سعد رفیق آمنے سامنے بیٹھے ہیں۔ بات چیت کا دروازہ کھلا ہے۔ خواجہ سعد رفیق اور سلمان رفیق نے اس ملاقات سے قبل میاں شہباز شریف کو اعتماد میں بھی کیا تھا۔ میاں فیملی پر اچھا وقت ہوتا تو وہ کبھی اس ملاقات پر راضی نہ ہوتے بلکہ ملاقات کی خواہش کرنے پر شاید سعد و سلمان کو ہی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا لیکن ان دنوں حالات ہی کچھ ایسے ہیں کہ میاں شہباز شریف نے بھی خوشی خوشی خواجہ برادران کو چودھری پرویز الٰہی سے ملاقات کی اجازت دے دی ہے۔
ملک کے موجودہ سیاسی حالات میں سیاسی جماعتوں نے مستقبل کے جوڑ توڑ اور ممکنہ سیاسی ضرورتوں پر کام شروع کر دیا ہے۔ سیاسی جماعتیں سوچ رہی ہیں کہ اگر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کارکردگی دکھانے میں ناکام رہتی ہے، وفاق اور صوبے کی سطح پر خراب کارکردگی اور فاش غلطیوں کا سلسلہ جاری رہے اور حکومت اپنے وزن میں دب جائے تو کیا حالات ہوں گے اور سیاسی اعتبار سے کہاں کس اتحاد کی ضرورت پڑ جائے اس پہلو کو دیکھتے ہوئے سیاسی جماعتوں میں بالخصوص پنجاب کی سطح پر غیر معمولی سیاسی سرگرمیاں دیکھنے میں آ سکتی ہیں۔ خواجہ برادران کی چودھری پرویز الٰہی سے ملاقات کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ پاکستان تحریک انصاف کی میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کے بارے انتہائی سخت رویے کے باوجود حمزہ شہباز شریف اور سلمان رفیق کے پروڈکشن آرڈرز کے لیے چودھری پرویز الٰہی نے دباؤ برداشت کرتے ہوئے اپنا اختیار استعمال کر کے ناصرف اعلی سیاسی روایت قائم کی بلکہ ن لیگ والوں کو بھی سبق دیا ہے کہ سیاسی مخالفت سیاست کے میدان میں ہونی چاہیے سیاسی کارکنوں اور اراکین اسمبلی کے بارے میں تعصب اور تنگ نظری کا مظاہرہ کرنا غیر سیاسی عمل ہے۔
اس ملاقات سے پنجاب کے دو بڑے سیاسی خاندانوں میں دوریاں بھی کم ہو سکتی ہیں۔ ممکن ہے خواجہ سعد رفیق کے ذریعے اختلافات کو دور کرنے کی مہم شروع ہو اور مستقبل میں دونوں لیگوں کے بڑے بھی مل بیٹھیں۔ ان دونوں کے ملنے سے پنجاب کا سیاسی منظر نامہ یکسر بدل جاتا ہے۔ دونوں کی سیاسی قوت اور سیاسی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ دونوں کے پاس حلقے جیتنے والے سیاستدان موجود ہیں موجودہ اسمبلیوں میں بھی ان کی نمائندگی اس تاثر کو تقویت پہنچاتی ہے۔ چودھری پرویز الٰہی تحمل مزاجی کے ساتھ آگے بڑھنے اور اپنی سیاسی طاقت اور سیاسی چالوں کو اچھے طریقے سے چلنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ زمینی حقائق اور سیاسی ضرورتوں کو سمجھتے ہوئے عوام سے ملتے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں یہی ان کی خاصیت ہے۔ اپنے دروازے کھولنے اور سیاسی گفتگو کے آغاز پر بھی چودھری پرویز الٰہی مبارکباد کے مستحق ہیں۔
جہاں تک تعلق خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان رفیق کا ہے۔ کرپشن الزامات کو ایک طرف رکھیں اور دونوں کے سیاسی سفر اور سیاسی طریقہ کار پر نظر دوڑائیں تو دونوں کا سیاسی سفر اور سیاسی طرز عمل لائق تحسین ہے۔ دونوں بہت محنتی ہیں۔ دونوں اپنی جماعت کے کارکنوں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔ سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں اور سیاسی نظریات کو آگے بڑھانے والے افراد میں نمایاں نظر آتے ہیں ایسے سیاسی لوگ کسی بھی سیاسی جماعت کے ماتھے کا جھومر ہوا کرتے ہیں۔ دونوں بہترین سیاسی کارکن ہیں۔ ملک میں وراثتی سیاست بہادر اور انتھک سیاسی کارکنوں کو اوپر آنے کی اجازت نہیں دیتا۔ ملک کی سیاست و حکومت پر جاگیر داروں، سرمایہ داروں، مالداروں اور سیاسی خاندانوں کا قبضہ ہے۔ جہانگیر ترین نے حال ہی میں اس حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کر کے وراثتی سیاست کی حقیقت کھول کر رکھ دی ہے۔ عمران خان اپنی سیاسی جدوجہد میں ہمیشہ سٹیٹس کو توڑنے کی باتیں کرتے رہے لیکن جہانگیر ترین بتاتے ہیں کہ خان صاحب کو بتایا کہ سیاسی خاندانوں کو شامل کیے بغیر آپ وزیراعظم نہیں بن سکتے۔
سیاسی کارکنوں کی تربیت اور انہیں صوبے اور وفاق کی سطح پر ذمہ داریاں نبھانے کے لیے ہمیں اپنے سیاسی نظام میں انقلابی اور دلیرانہ فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاست دانوں کے لیے بھی تربیتی ادارے کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے اگر ہم جمہوری نظام کے ساتھ ہی آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو پھر ملک بھر میں متفقہ طور پر ایک بلدیاتی نظام قائم ہونا چاہیے ایسا نظام جو حکومت کے ساتھ نہ بدلے۔ اوپر جو مرضی تبدیلی ہو جائے لیکن کسی کو بلدیاتی نظام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ نہ یہاں انتخابی عمل میں کوئی رکاوٹ آنی چاہیے۔ اس سے اوپر کی سطح پر جانے سے پہلے پارلیمانی افیئرز اور روزمرہ کے معاملات کو چلانے کے لیے بین الاقوامی معیار کا تربیتی ادارہ قائم کیا جائے۔ اس سے آگے بڑھ کر ہمیں مختلف اہم شعبوں سے ماہرین کو پارلیمنٹ میں لانا چاہیے۔ ان شعبوں میں دفاع، تعلیم، ٹیکنالوجی، زراعت، پاور سیکٹر، بزنس کمیونٹی سمیت تمام اہم شعبوں سے منسلک اہم افراد کو آگے لا کر انکی خدمات سے استفادہ کیا جائے۔ پارلیمانی نظام میں بہتری ملک و قوم کے مفاد کو سامنے رکھ کر کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں سیاسی جماعتیں اگر چھوٹے چھوٹے ذاتی مفادات کو ایک طرف رکھ کر کام کریں تو یقین کریں یہ ہر بڑے سے بڑا کام کر سکتے ہیں۔قوت سماعت کو بہتر کریں، قوت برداشت میں اضافہ کریں، درگذر کرتے ہوئے آگے بڑھیں کوئی کام مشکل نہیں ہے۔