اسلام آباد(نوائے وقت رپورٹ‘ نیوز رپورٹر) سابق وزیر داخلہ اور چیئرمین سینیٹ سٹینڈنگ کمیٹی داخلہ رحمن ملک نے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے نام ایک خط میں مطالبہ کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر اعلیٰ اختیاراتی کمشن بنایا جائے۔ رحمن ملک نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں مسلسل سات ماہ سے کرفیو نافذ ہے جس کی وجہ سے وہاں مریضوں کو ادویات مل رہی ہیں نہ انہیں ہسپتال جانے دیا جا رہا ہے جبکہ بچے دودھ اور خوراک نہ ہونے اور مریض ادویات اور صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا اعلیٰ اختیاراتی کمشن خود مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرے تا کہ وہ آپ کو اپنی رپورٹ پیش کرے۔ رحمن ملک نے اس حوالے سے 8جولائی2019ء کی جاری کردہ کمشنر کی رپورٹ کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں مقبوضہ کشمیر میں ان کی خصوصی کی سنگین خلاف ورزیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ رحمن ملک نے مزید کہا ہے کہ اب جبکہ کرونا وائرس پھیل گیا ہے اس بات کی اطلاعات ہے کہ وادی میں کرونا وائرس کے مریض بھی علاج معالجہ کی سہولت حاصل نہیں کر سکتے حالانکہ کسی کا بھی ہسپتال جانا اس کا بنیادی حق ہے جو سلب کیا گیا ہے۔ دوسرا اب جموں کشمیر سول سروسز ڈی سنٹر لائزیشن اینڈ ریکروٹمنٹ ایکٹ 2010 میں ترمیم کے بعد مقبوضہ کشمیر کا ڈومیسائل حاصل کرنے کی راہ بھی ہموار ہو گئی ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ اعلیٰ اختیاراتی کمشن بنانا چاہئے جو دورہ کر کے رپورٹ پیش کرے۔ میں اس سلسلے میں خود اپنے سمیت مختلف ارکان پارلیمنٹ کی خدمات کی پیشکش کر چکا ہوں۔ رحمن ملک نیکنٹرول لائن پر بھارت کی طرف سے کی جانے والی سنگین خلاف ورزیوں کی مذمت بھی کی ہے اور کہا ہے کہ اس میں سویلین آبادی کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اور یہ بھی انسانی حقوق کی عالمی خلاف ورزی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب کہ دنیا کرونا کیخلاف جنگ میں مصروف ہے بھارتی وزیراعظم مودی ایسے میں بھی جنگ چھڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دریں اثناء رحمن ملک نے اس خبر کا نوٹس بھی لیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ساڑھے 11کروڑ پاکستانی موبائل یوزرز کا ڈیٹا چوری کر لیا گیا ہے اور ڈارک ویب میں فروخت کیلئے رکھ دیا گیا ہے۔ اس ڈیٹا کی ذاتی معلومات شامل ہیں جن میں نام مکمل ایڈریس‘ موبائل اور شناکٹی کارڈ نمبرز اور ٹیکس وغیرہ شامل ہیں جو انتہائی چونکا دینے والی بات ہے۔ انہوں نے سیکرٹری داخلہ کو ہدایت کی ہے کہ ایف آئی اے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اور نادرا سے انکوائری کرائی جائے اور سٹیندنگ کمیٹی سینیٹ برائے داخلہ کو اس کی ٹھوس رپورٹ پیش کریں۔