اسلام آباد اور ماسکو کے درمیان دوستانہ مراسم کیلئے باہمی اعتماد کی بحالی اس وقت ہوئی جب پاکستان کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے جون 2015 میں روس کا دورہ کیا، کریملن پہنچنے پر روسی فوج نے پاک فوج کے سپہ سالار کا پرتباک استقبال کیا۔ انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ جنرل راحیل شریف پھول چڑھانے کیلئے Tomb of Unknown Soldierپہنچے تو اس موقع پر روسی فوج کے بینڈ نے پاکستان کے قومی ترانے کی دھن بجا کر معزز مہمان کا استقبال کیا۔ یہ روس کی طرف سے پاک فوج کیلئے احترام اور پاکستان کیلئے بھرپور دوستی کا اظہار کے علاوہ دنیا کیلئے بھی پیغام تھا جسے امریکہ و مغربی ممالک کے علاوہ بھارت میں خطرے کی گھنٹی کے طور پر دیکھا گیا ۔ بھارت میں اسے نریندر مودی کی سفارتی سطح پر بہت بڑی ناکامی قرار دیا گیا ۔ جنرل راحیل شریف کے اسی دور ے کے ثمرات روس کی طرف سے پاکستان کو دئیے جانے والے 4عدد MI-35 جنگی ہیلی کاپٹر وں کی صورت میں سامنے آئے ۔ساتھ ہی روس نے پاک چین تجارتی راہداری منصوبے سی پیک میں دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے اس دعوے کا جواب دے دیا جو اس نے ہر صورت اور کسی بھی قیمت پر سی پیک منصوبے کو ناکامی سے دوچار کرنے کے حوالے سے کیا تھا۔ قارئین کو یاد ہوگا بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے جنوری 2015ء میں سی پیک پروجیکٹ کو ناکامی سے دوچار کرنے کیلئے اپنے مشیر برائے سلامتی اجیت کمار دوول کی نگرانی میں باقاعدہ ایک سیل قائم کرتے ہوئے اس کیلئے بھاری فنڈز مختص کیے تھے۔ 2015ء میں ہی روس نے 2 ارب ڈالر کی لاگت سے North - South Gas Pipeline منصوبے کا بھی اعلان کیا تھا۔۔ بعدازاں پاکستان کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باوجوہ کے اپریل 2018 ء میں روس کے دورہ نے بھی پاکستان و روس کو باہم قریب لانے اور تعلقات کو مضبوط دوستی میں بدلنے کے سلسلے میں اہم کردار ادا کیا ۔ اس موقع پر روس کے آرمی چیف جنرل Oleg Salyukov نے جنرل قمر جاوید باوجوہ کے اعزاز میں منعقد کی گئی تقریب میں نہ صرف پاک فوج کو خراج تحسین پیش کیا ، پاک فوج کے خطے میں امن کیلئے کی جانے والی کوششوں اور دی جانے والی قربانیوں کو یہ کہہ کر سراہا کہ پاک فوج کے وجہ سے ہی خطے کا امن قائم ہے ۔ اس نے پاکستان کو خطے کا اہم ملک قرار دیتے ہوئے روسی فوج کے پاک فوج کے ساتھ مضبوط تعلقات کی ضرورت پر زوردیا۔
پاکستان و روس کے درمیان عسکری سطح پر مضبوط تعلق اس وقت سامنے آیا جب روس کے معروف اخبار TASS نے اگست 2016 ء کی اشاعت میں انکشاف کیا کہ عنقریب روس و پاکستانی افواج کے دستے مشترکہ فوجی مشقیں کرنے جارہے ہیں۔ یہ انکشاف روس کے آرمی چیف General Oleg Salyukov کی طرف سے جاری کیے گئے بیان کے حوالے سے کیا گیا تھا۔ جس کے مطابق روسی و پاکستانی فوجی دستوں کی 7مشترکہ مشقوں کیلئے وقت اور مقامات کا شیڈول طے کیا جاچکا تھا۔ ستمبر2016 ء میں منعقد ہونے والی پہلی فوج مشقوں کو روس نے اپنی زبان میں Druzhbha 2016'' ''(دوستی2016-) کا نام دیا ۔ 23 ستمبر 2016ء کو روسی فوج کے دستے پاکستان پہنچے تو بھارت میں دفاعی مبصرین اور میڈیا اینکرز نے اسے بھارت کیلئے ایک بہت بڑا سانحہ قرار دیا کیونکہ 18 ستمبر 2016ء کو مقبوضہ کشمیر کے ضلع بارہ مولامیں قابض بھارتی فوج کے Uri برگیڈہیڈکو ارٹرمیں ہونے والے حملے اور اس میں مارے گئے 29کے قریب بھارتی فوجیوں کو بنیاد بناکر بھارت کی وزار ت خارجہ نے روس سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ پاکستان کی طرف سے اڑی برگیڈہیڈ کوارٹر میں کرائی گئی دہشت گردی کو مدنظر رکھتے ہوئے روسی فوج پاکستان میں پاک فوج کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں منسوخ کرے۔ اڑی میں برگیڈہیڈ کو ارٹر پر حملہ ہوتے ہی بھارتی میڈیا اورحکومت نے پاکستان و پاک فوج کو موردِالزام ٹھہراتے ہوئے پروپیگنڈے کی انتہا کردی تھی۔ لیکن یہ پہلا موقع تھا جب دنیا نے بھارت کے واویلے کو قابل توجہ نہ سمجھتے ہوئے دہشت گردی کے الزام پر پاکستان کے خلاف کسی بھی طرح کے ردعمل کے اظہار سے گریز کیاتھا۔ ٹھیک پانچ روز بعد روسی فوجی دستے کی پاکستان کو رکوانے اور پاکستان میں 2 ہفتوں تک قیام و مشترکہ مشقوں میں شرکت کو منسوخ کرانے کیلئے بھارت نے بھرپور کوشش کیں۔ ماسکو کو پیغام دیا گیا ہے کہ وہ ان مشقوں کو کچھ عرصہ کیلئے مؤخر کردے لیکن روسی حکومت نے صاف انکار کردیا۔ بھارت میں اپوزیشن جماعتوں نے اسے بھارت کے خلاف پاکستان کی بڑی کامیابی اور بھارت کیلئے باعث شرمندگی کے طور پر لیا ۔ بھارتی عوام کا رد عمل بھی شدید تھا جو پاکستان سے انتقام لینے کا مطالبہ کررہے تھے ۔ اپنی اسی عالمی سطح پر ہونے والی شرمندگی اور بھارتی عوام کا منہ بند کرنے کیلئے بھارتی فوج وحکومت نے پاکستان کے خلاف پہلا سرجیکل اسٹرائیک کا ڈرامہ رچایا اور اعلان کیا کہ بھارتی کمانڈوز رات کے اندھیرے میں جنگی ہیلی کاپٹر کے ذریعے لائن آف کنٹرول کے پار آزاد کشمیر میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر اُترے اور وہاں موجود سینکڑوں دہشتگردوں کو مارنے کے بعد کسی بھی جانی نقصان کے بغیر اپنے ٹھکانوں پر واپس لوٹ آئے۔ بھارت نے جس وقت جھوٹ پر مبنی سرجیکل اسٹرایک کاڈھول پیٹا روس کا فوجی دستہ پاکستان میں مشترکہ فوجی مشقوں میں مصروف تھا۔ بھارتی جھوٹ کا پردہ بھی سب سے پہلے روسی میڈیا نے یہ بتاکر فاش کیا کہ بھارت کی آرمی ایوی ایشن کے پاس اپنے جنگی ہیلی کاپٹروں کو رات کے وقت کسی بھی طرح کی پرواز پر بھیجنے یا آپریشن میںاستعمال کرنے کی ٹیکنالوجی نہیں ہے نہ ہی بھارتی فوج یا اس کے کمانڈوز رات کے اندھیرے میں گنجان جنگلوں پر مشتمل پہاڑی علاقے میں سرجیکل اسٹرائیک کی ٹیکنالوجی یا پیشہ وارانہ استعداد رکھتے ہیں۔
اس کے بعد سے روس و پاکستان کے درمیان ہر گزرتے وقت کے ساتھ تعلقات مضبوط اور مضبوط تر ہوتے چلے گئے ۔ دونوں ملکوں کے خطے میں بہت سے مفادات مشترک ہیں۔ جس میں معاشرتی استحکام و ترقی اور افغانستان میں پائیدار امن کا قیام پاکستان کی طرح روس کی بھی ضرورت ہے ۔ روسی وزیرخارجہ سرگئی کی 2 روزہ دورے پر پاکستان آمد اسی سلسلے کی کڑی ہے جسے عالمی سطح پر بڑی پیشرفت کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ بھارت گزشتہ سات دہائیوں سے روسی ساختہ اسلحہ کا سب سے بڑا خریدار رہا ہے۔ ابھی بھی بھارت کے روس کے ساتھ جدید اسلحہ کی خریداری کے بہت سے معاہدے موجود ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان کے ساتھ روس کے روابط اور تعلقات میں کشش کی بنیادی وجہ روس کے پاکستان کے سات جڑے ہوئے جغرافیائی مفادات ہیں۔ روس کے اتحادی چین کے خلاف بھارت کا امریکہ سے الحاق اور بھارت کو ساتھ ملاکر امریکہ و دیگر مغربی قوتوں کے ایشیاء میں معاشی و اقتصادی ترقی کی راہ میں ڈالی جانے والی رکاوٹیں صرف ایشیا ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر میں ایک نئی صف بندی کے نشاندہی کر رہی ہیں۔ جس میں پاکستان کا کردار نہایت اہم ہے پاکستان نے یہ مقام دنیا کی مشکل ترین جنگ میں کامیابی کے بعد حاصل کیا ہے۔ جس کا اظہار روسی وزیرخارجہ نے اپنے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران پاک فوج کے دہشت گردی کے خلاف کردار کو سراہتے ہوئے کیا ہے۔ بلاشبہ روس و پاکستان مل کر مستقبل میں خطے میں تعمیر وترقی اور قیام امن میں ایک دوسرے کے ساتھ شانہ بشانہ ہونگے۔