الحمدللہ!رمضان المبارک اپنی رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ ہم پر سایہ فگن ہو رہا ہے۔ کریم آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق ماہ ذیشان کے دن با برکت اور راتیں پر نور ہوتی ہیں۔ ہرفرد اپنی استطاعت اور اللہ رب العزت کی طرف سے عطا کی گئی توفیق کے مطابق عبادت کرتا ہے۔ روحانیت کی اس کیفیت کا اظہار شاعر نے بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا
مرحبا صد مرحبا پھر آمد رمضان ہے
کھل اٹھے مرجھائے دل تازہ ہوا ایمان ہے
معروف دانشورپروفیسر ڈاکٹر غلام معین الدین نظامی نے اس کی منظر کشی فرمائی’’تیس چالیس سال پہلے رمضان المبارک سے قبل مسجدوں کی مرمت اور صفائی شروع ہو جاتی۔ نئی چٹائیوں اور دریوں کا انتظام کیا جاتا۔ قرآن کریم کے نئے نسخے خرید کر رکھے جاتے۔ نمازتراویح کے لیے حفاظ کے انتخاب اور ان کی خاطر مدارت کی پلاننگ حتمی مراحل میں داخل ہو جاتی۔ مخیر حضرات اور صاحب حیثیت گھرانے عوام کے لیے معمول سے زیادہ راشن خریدتے ‘‘۔
رمضان المبارک کا مہینہ انتہائی احترام کا تقاضا کرتا ہے۔ اس ماہ کی عظمت و قدرکا احساس ضروری ہے۔ خوش آئند ہے کہ ملک عزیز میں احترام رمضان آرڈیننس موجود ہے لیکن صد افسوس کہ اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ اس آرڈیننس کے مطابق پبلک مقامات پر کھانے ، پینے اور سگریٹ نوشی پرپابندی ہے۔ ہسپتال ، بس سٹینڈ اور ریلوے سٹیشن پر خوردونوش کی اجازت صرف مریضوں اور مسافروں کو ہے لیکن ہٹے کٹے،صحت مند افرادپیٹ پوجا کرتے نظر آتے ہیں۔آرڈیننس کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں یاد رہے کہ رمضان کریم کی بے حرمتی کرنے کی وجہ سے تمام معاشرہ عذاب الہی کا شکار ہو جائے گا۔
آمد رمضان کے ساتھ ہی اشیائے خوردونوش نوش کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اس ماہ مقدس کے احترام میںقیمتیں کم نہ سہی مناسب ہی رکھی جائیں تاکہ عوام سکون کے ساتھ اپنی ضرورت کے مطابق خریداری کر سکیں۔لیکن معاشرہ کی اخلاقی گراوٹ کی انتہا ہے کہ اس پاکیزہ مہینے میں بھی لوگ اس مکروہ دھندے سے باز نہیں آتے۔ ذخیرہ اندوز اور ناجائز منافع خور بڑی بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ تجوریاں بھرنے کی تیاریوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ عام اشیاء خورد ونوش جو وافر مقدار میں موجود ہوتی ہیںان کی قیمتوں کو پر لگ جاتے ہیں۔ ناقابل فہم ہے کہ قیمتوں پر کنٹرول کرنے والے ادارے کہاں غائب ہو جاتے ہیںاورعوام کی جیبیں صاف کرنے کا دھندا جاری رہتا ہے۔اگر حکومت ’’رمضان بازاروں ‘‘ میں غیر معیاری اشیا ء فروخت کرنے کی بجائے اپنی توانائی عام مارکیٹ میںقیمتوں کو قابو رکھنے کے لیے صرف کرے توعوام پر بڑا احسان ہوگا اور یہ حقیقی ریلیف ہے۔ پورے سال کی کمائی اس ایک ماہ میں کرنے کی سوچ بڑی غلیظ اور گھٹیا ہے اس کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔ یقیناً یہی وجوہات ہیں جس کی وجہ سے برکت ختم ہو گئی ہے۔ان حرکتوں کی وجہ سے عالمی سطح پر ملک عزیز کی بدنامی ہو رہی ہے۔شاید اسی طرح کے لوگوں کے بارے میں ہی راحت اندوری مرحوم نے کہاتھا۔
دوزخ کے انتظام میں اْلجھا ہے رات دن
دعوٰی یہ کر رہا ہے کہ جنت میں جائے گا
ماہ رمضان ایک اسلامی مہینہ ہے جس کا تعلق عبادات سے ہے۔ اس مہینہ میں سحری و افطار ٹرانسمشن کا مقصد ٹی وی چینلز کی ریٹنگ میں اضافہ ہر گز نہیں ہونا چاہیے۔ضروری نہیں کہ ہر پروگرام ریٹنگ کے لیے ہی ہوایک آدھ پروگرام اللہ پاک کی رضا کی خاطرکر کے دیکھ لیں وہ ذات پاک اس کا صلہ ضرور دے گی۔ ضروری ہے کہ دینی اور فقہی معاملات پر صرف وہی لوگ بات کریں جن کا تعلق دینی شعبہ سے ہو۔ شو بز سے تعلق رکھنے والی خواتین و حضرات کے لیے کیا گیارہ مہینے کافی نہیں ؟ نشریات کے حوالے سے اصول و ضوابط طے کرنا اور حدود قیود مقرر کرنا ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔ عوام کے احساسات کو سمجھیں یہ نشریات نام نہاد علماء اور’’ دیگر ‘‘ خواتین و حضرات کی پہنچ سے دور رکھیں۔امید ہے فتنے سر نہیں اٹھائیں گے۔
اللہ پاک رمضان المبارک کو باعث برکت بنائے ہم سب کو اس کا احترام کرنے اور اس کے فیوض برکات سے فیض یاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔