ڈسکہ کا الیکشن اور تحریک انصاف

 ڈسکہ کا الیکشن بے شمار لوگوں کا درد سر بنا ہوا تھا خدا خدا کرکے اپنے انجام کو پہنچا یہ الیکشن کم اور دو جماعتوں کی جنگ زیادہ لگتی تھی اس جنگ میں پیسے کا بے دریغ استعمال ہوا ری الیکشن نے تو امیدواروں کا کچومر نکال دیا بالاآخر ن لیگ میدان مارنے میں کامیاب ہو گئی۔ اب ن لیگ اس کامیابی کو حکومت کے خلاف ریفرنڈم قرار دے رہی ہے اور اپنی مقبولیت کا پر چار کر رہی ہے۔ ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ اس بار الیکشن کمیشن اور انتظامی اداروں کی پرفارمنس پہلے سے بہتر تھی اس بار بھی کئی جگہوں پر چھوٹی موٹی کوتاہیاں دیکھنے میں آئیں لیکن مجموعی طور پر بہتر انتظامات تھے الیکشن کمیشن کو اپنے ایکٹ سے اپنے آپ کو مضبوط خود مختار اور آزاد ثابت کرنا ہے۔ بہر حال اصل معاملہ دو جماعتوں کے دنگل کا تھا جس میں ہار جیت کے جواز ڈھونڈے جا رہے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ نشست مسلم لیگ ن کی نشست تھی جس پر زارے شاہ چھ سات دفعہ ممبر پارلیمنٹ منتخب ہو چکے تھے ان کی وفات پر ن لیگ نے ان کی بیٹی کو امیدوار بنایا تھا ان کی بیٹی نے خاتون اول والا گیٹ اپ اختیار کیا جس کو ہمارے دیہی کلچر نے بہت زیادہ پسند کیا پھر ان کے والد کی وفات پر ہمدردی کا ووٹ بھی انہیں ملا۔ دیہی کلچر کو جاننے والے بخوبی سمجھتے ہیں کہ ہمارے دیہات میں ویسے کسی کی فوتگی ہو جائے تو اس کے ساتھ ہر کوئی ہمدردی جتلاتا ہے اوپر سے ن لیگ نے ری الیکشن کو اپنے حق میں استعمال کیا کہ حکومت اپنے امیدوار کو جتانے کے لیے ایسا کر رہی ہے جبکہ حکومتی امیدوار اس پروپیگنڈہ کا توڑ نہ کر سکے۔ لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ الیکشن صاف شفاف ہوئے ہیں حکومت نے کہیں ڈنڈی مارنے کی کوشیش نہیں کی ورنہ ماضی میں ہم دیکھتے رہے ہیں کہ ضمنی الیکشن ہمیشہ حکومتوں کا رہا ہے اپوزیشن حکومتی مشینری کے سامنے بے بس ہوتی تھی اب یہ تبدیلی ضرور آئی ہے کہ سب کو ایک جیسے مواقع دئیے گئے اس کا اندازہ یہاں سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ پورے ملک میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں حکومتی جماعت صرف خیبر پختون خواہ میں اپنی ایک نشست بچا پائی وہاں بھی حکومت اپنی صوبائی اسمبلی کی نشست ہار گئی تھی اس طرح سارا ضمنی الیکشن اپوزیشن نے جیتا ہے اس طرح حکومت کے اثر انداز ہونے کی کہانی تو ختم ہوئی اپوزیشن اس کو موجودہ حکومت کے خلاف عوامی ردعمل قرار دے گی اور اسے عوامی عدم اعتماد بھی کہا جائے گا۔ لیکن اسے اچھی روایت بھی قرار دیا جا سکتا ہے کہ اب عوام کے فیصلے کو ہائی جیک نہیں کیا جاتا۔ حکومت کو ان عوامی اشاروں کے بعد اپنی پرفارمنس کو بہتر بنانے کا سبق بھی ملتا ہے یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اپوزیشن ضمنی انتخابات کے نتائج کو عوامی ریفرنڈم سے تشبیہ دے کر اور جہانگیر ترین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے والے تحریک انصاف کے اراکین پارلیمنٹ کو جواز بنا کر عمران خان سے استعفے کا مطالبہ درست نہیں۔ حیرت ہوتی کہ شاہد خاقان عباسی جو کہ خود وزیراعظم رہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ جہانگیر ترین کے ساتھ 8 اراکین قومی اسمبلی ہیں عمران خان 7 ووٹوں کی اکثریت سے وزیراعظم ہیں لہذا وزیراعظم کو اب اکثریت کا اعتماد حاصل نہیں رہا۔ یہی بات جب یوسف رضا گیلانی قومی اسمبلی سے سینٹر منتخب ہونے تھے تو کہی گئی کہ عمران خان کو اب اکثریت کی حمایت حاصل نہیں رہی اس وقت تو سیاست اور نفسیاتی عوامل کا تقاضا تھا کہ وزیراعظم اعتماد کا ووٹ لے کر اپنی اکثریت ثابت کریں سو انہوں نے کر دی۔ اب اپوزیشن کا خیال ہے کہ ہم ایسی باتیں کرکے عمران خان کو جذباتی کر کے اس سے استعفی لے لیں گے یا عمران خان اسمبلی توڑ دیں گے تو عمران خان اتنا بھی بھولا نہیں اور نہ ہی اتنا جذباتی ہے کہ وہ اپوزیشن کی چالوں کو نہ سمجھ سکے جہانگیر ترین ان کی جماعت کے ہیں اور ان سے ہمدردی رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ بھی ان کی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں جہانگیر ترین کی پی ٹی آئی کے لیے خدمات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ ارکان عمران خان کی حکومت گرا سکتے ہیں سیاسی حالات عمران کو موقع دے چکے اگر حکومت کی تبدیلی مطلوب ہوتی تو پی ڈی ایم کو کبھی ٹوٹنے نہ دیا جاتا عمران خان سے ترین کی ایک ملاقات یا حکومت کی جانب سے شفاف تحقیقات کی یقین دہانی سے اس غبارے سے ہوا نکل سکتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن