لب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغام محمدؐ کا تمہیں پاس نہیں
رمضان المبارک رحمتوں اور برکتوں والا سب سے افضل مہینہ ھے اس ماہ میں رزق میں فراوانی کردی جاتی ھے صحت و تندرستی کو نئی زندگی ملتی ھے جسم کو نقصان دینے والی چیزیں نکال دی جاتی ہیں- اللہ پاک مسلمانوں کے لئے اس ماہ میں لوٹ سیل لگا دیتے ہیں دن میں روزہ اور دوسری عبادتوں کا ثواب رات میں نماز تراویح کا ثواب قدر دانوں کے لئے ایک الگ نعمت ھے ہر مسلمان کچھ نہ کچھ ثواب کمانے کی فکر میں رہتا ھے ۔ اس ماہ کی عبادت کا ثواب دوسرے مہینوں سے بہت زیادہ رکھا گیا ھے- چونکہ یہ خاص عبادت پورے سال میں صرف ایک مہینہ کے لئے ہوتی ھے اس لئے اس کے مسائل سے بھی عام طور پر لوگ ناواقف ہوتے ہیں۔ تراویح " ترویحہ " کی جمع ھے اور ترویحہ ایک دفعہ آرام کرنے کو کہتے ہیں جیسے "تسلیمۃ" ایک دفعہ سلام پھیرنے کو کہتے ہیں اور شریعت کی اصطلاح میں تراویح کی نماز وہ نماز ھے جو سنت موکدہ ھے اور رمضان المبارک کی راتوں میں عشائ کی نماز کے بعد سے صبح صادق کے درمیان جماعت کے ساتھ یا اکیلے پڑھی جاتی ھے ویسے عام رواج عشاء کے بعد متصل پڑھنے کا ھے اور تراویح کی نماز کو تراویح کے لفظ کے ساتھ نام رکھنے کی وجہ یہ ھے کہ جب صحابہ کرام ؓ پہلی مرتبہ اس نماز کو پڑھنے کے لئے جمع ہوئے تو وہ ہر دو سلام ( چار رکعتوں ) کے بعد ترویحہ یعنی آرام اور وقفہ کرتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ھے کہ نبی کریم ؐ رات کو چار رکعت پڑھتے پھر کچھ دیر آرام کرتے ، پھر بہت دیر تک ایسے نماز پڑھتے ، یہاں تک کہ مجھے ان پر رحم آتا تو میں عرض کرتی کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالی نے آپکی اگلی پچھلی تمام لغزشیں معاف فرما دی ہیں ( تو اتنی مشقت کیوں کرتے ہیں ) تو نبی کریم ؐ فرماتے ہیں تو کیا میں اللہ تعالی کا شکر گزار بندہ نہ بنوں - حضرت عمر بن خطابؓ رمضان میں ہمیں دو ترویحوں کے درمیان اتنی دیر راحت کا موقع دیتے تھے کہ جتنی دیر میں آدمی مسجد نبوی سے سلع نامی پہاڑ تک جاسکے۔ تراویح کی نماز سب سے پہلے ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں خود نبی کریم ؐ نے شروع فرمائی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تراویح کی نماز مسجد نبوی میں تین دن جماعت کے ساتھ ادا کی پھر اس اندیشے سے ترک کردی کہ کہیں میری امت پر فرض ہی نہ ہو جائے اور صحابہ کرام کو تاکید فرمادی کہ ہر شخص نماز تراویح انفرادی طور پر اپنے گھر میں ادا کرے۔ اس کے بعد دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے 14 ھجری میں صحابہ کرام وغیرہ کو ایک جماعت پر جمع فرمایا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف اس کی نسبت اس لئے کی جاتی ھے کہ انہوں نے لوگوں کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت پر جمع فرمایا, حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا وصال 19 ھجری میں ہوا، پانچ سال تک وہ خود بھی 20 رکعات پڑھاتے رھے اور دوسرے اصحاب بھی 20 رکعت پڑھتے رھے، حضرت ابی بن کعب ؓ جیسے عظیم صحابی نے اس دوران کسی بھی روایت کو بیس رکعت والی رواہت کے خلاف پیش نہی کیا- حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ھے کہ نبی کریمؐ رمضان المبارک میں بیس رکعت ( تراویح ) اور وتر پڑھا کرتے تھے- یہ حدیث ضعیف نہی بلکہ قوی اور صحیح ھے کیونکہ تمام صحابہ کرام نے اس حدیث کے مطابق تراویح کی نماز پڑھی ھے ، بلکہ اس حدیث کی صحت پر صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور آئمہ مجتہدین کے دور میں اجماع ہوچکا ھے- مذاہب اربعہ میں تراویح کے تعلق سے اس بات پر اتفاق ھے کہ یہ نماز سنن و نوافل میں ایک اہم نماز ھے تراویح میں جماعت سنت کفایہ ھے کہ اگر مسجد کے سب لوگ چھوڑ دیں گے تو سب گنہگار ہوں گے لیکن اگر مسجد میں تراویح جماعت سے پڑھی جارھی ھے لیکن کسی ایک شخص نے گھر میں تنہا ادا کرلی ھے تو گناہ نہیں ہوگا۔ نماز تراویح معمولات رمضان میں قیام اللیل کی خاص فضیلت حاصل کرنے کا ایک اہم ترین ذریعہ ھے اسی لئے خلفائے راشدین کے زمانے سے لیکر آج تک نماز تراویح باجماعت ادا کرنے کا تغافل چلا آرھا ھے- نماز تراویح کی باجماعت ادا کرنے کا دوسرا اہم ترین مقصد مکمل قرآن کریم کی قرات و سماعت بھی ھے چنانچہ تراویح میں پورا قرآن سننا اور سنانا مسنون ھے- خلفائے راشدین کا حد درجہ اہتمام فقط اسی لئے تھا کہ عوام کے دلوں میں قرآن کی تلاوت کی گونج سنائی دے۔
اس کی مسنون حیثیت کو موکد حیثیت دینا تحفظ قرآن اور تحفظ تلاوت قرآن پر ہی منتج ہوتی ھے۔ موجودہ دور میں اس حکمت و مصلحت کا ہر شخص اندازہ کرسکتا ھے کہ تلاوت سے عدم دلچسپی اس درجہ عام ہوچکی ھے کہ قرآن کریم ایک مظلوم کتاب بن کر رہ گئی ھے- رمضان میں یقیناّ اس کتاب الہی کی تلاوت کا خوب اہتمام ہوتا ھے، لیکن نمازوں میں قرآن پڑھنے اور سننے کا اہتمام بہت نیچے درجے پر ھے ۔