عہدِ گْم گشتہ کی باقی وہ جوانی ہو گی
نقشِ دل تیری یہ تصویر پرانی ہو گی
تیری تحریر پہ مجھ کو تو بھروسا ہی نہیں
اب کے جو بات بھی ہو گی وہ زبانی ہو گی
اْس کے وعدے پہ نہ جا اے دلِ محزونِ وفا
یہ بھی اک سازشِ اندوہِ نہانی ہو گی
تْو نے دیکھا ہی نہیں میری طبیعت کا جلال
بر سرِ دار و رسن شْعلہ فشانی ہو گی
تْو نے جو مجھ کو سنائی ہے سرِ بزمِ رقیب
میری ناکام محبّت کی کہانی ہو گی
ہر کوئی اپنے ہی شانوں پہ اْٹھائے گا صلیب
نعشِ صد پارہ ہمیں خود ہی اٹھانی ہو گی
کب تلک روزنِ زنداں سے تماشا دیکھیں
جعفری جبر کی دیوار گرانی ہو گی
(ڈاکٹر مقصود جعفری ،نیو یارک)
عہدِ گْم گشتہ
Apr 12, 2022