کیا سیاستدانوں نے ملک و سماج کا بیڑا غرق کیا ؟

Apr 12, 2023

تاریخ … پروفیسر ڈاکٹر نثار احمد چوہدری
dr.nisar.karlot@gmail.com
پنجابی کی ایک لوک کہانی مشہور ہے کہ غفورا بہت ہی سیدھا سادا اور کسی حد تک بے وقوف سا نوجوان تھا۔ گا ؤں میں ہر کوئی اسے اوئے غفورے کہہ کر بلاتا تھا۔ وہ جدھر سے گزرتا ہر کوئی اس کا مذاق اڑاتا، فقرے کستا، جگتیں مارتا اوروہ سن سن کر ہنستا رہتا۔ غفور کی شادی اس کے ماموں کی بیٹی سے ہو گئی۔ لوگ یہ سن کر حیران ہوتے کہ غفور کی دلہن میٹرک پاس ایک سمجھ دار سگھڑ لڑکی ہے۔ ایک دن بڑے چوہدری کا نوکر کسی کام سے غفورے کو بلانے آیا۔ اس نے گھر کے دروازے پر آکر آواز دی او غفورے۔ اوغفورے غفور اس وقت گھر پر نہیں تھا۔ اس کی نئی نویلی دلہن نے اوٹ کے پیچھے کھڑے ہو کے جواب دیا "بھائی چوہدری عبدالغفور صاحب گھر پر نہیں ہیں …" بڑے چوہدری کے نوکر نے یہ سنا تو اس کی ہنسی نکل گئی۔ہنستے ہنستے وہ واپس لوٹا تو راستے میں جو بھی ملا اسے یہ لطیفہ ضرور سناتا آیا کہ غفورا اب چوہدری عبدالغفور ہو گیا ہے۔ واپس جاکر نوکر نے بڑے چوہدری صاحب کویہ لطیفہ سنایا کہ غفورے کی بیوی اسے چوہدری عبدالغفور صاحب کہتی ہے۔ اب گا ؤں کے سارے لوگوں نے مذاق مذاق میں غفورے کو او غفورے کہنے کی بجا ئے چوہدری عبدالغفور صاحب کہنا شروع کردیا۔ تھوڑے عرصہ میںلوگ طنز یا مذاق کو بھول بھال گئے اور غفورے کا نام ہی چوہدری عبدالغفور صاحب پڑگیا۔ کہانی سبق آموز ہے کہ گھر والی سمجھ دار ہو تو اپنے سیدھے سادھے بے وقعت سے شوہر کوبھی " صاحب"بنا سکتی ہے۔
ہمارے سیاستدانوں نے گزشتہ تین چار دہا ئیوں میں ہمارے ملک و معاشرے کا وہ حال کر دیا ہے جو اب ہم سب کے سامنے ہے۔ 1988ئ￿ میں بے نظیر بھٹواور ان کے بعد اس ملک کا جو بھی وزیراعظم بنا اسے اس کے مخالفوں نے کرپٹ اور چور ثابت کردیا۔ آدھا ملک ایک کو چور کہتاہے اور باقی آدھا دوسرے کو۔ وزیر اعظم چور تو کابینہ کا ہر ممبر چور … پچھلے دور میں ایک صاحب نے اپنے دھرنے اور جلسے جلوسوں میں سابق چیف جسٹس کا نام لے لے کر انھیں موردالزام ٹھہرایا اور جب ان کے مخالف وزیر اعظم کو سپریم کورٹ کے فل بنچ نے کرپشن کے الزام میں تاحیات نااہل کرکے فارغ کر دیا ہے تو انھوں نے "مجھے کیوں نکالا" کے سلوگن والے جلسوں میں حاضر سروس آرمی چیف پر ملی بھگت اور سازش کے الزامات لگائے۔ نئی حکومت آئی تو ایک صاحب نے نئے وزیر اعظم کو سلیکٹڈ اور ایک عالم دین نے انھیں یہودیوں کا ایجنٹ ثابت کرنا شروع کردیا۔ ان کے خلاف عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تو انھوں نے اسے امریکی سازش اور حاضر سروس آرمی چیف کی ملی بھگت قرار دیا اورآرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کا نام لے لے کر سارا مدعا ان پر ڈال دیا۔ ان کے مخالفوں نے انھیں گھڑی چور اور ناجانے کیا کیا کہا۔ حکومت وقت اور ان کے سرپرست اعلی نے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس کو اپنی حکومت کے خاتمے کی سازش کا کردار ثابت کرنا شروع کیا اور پھر اچانک حاضر سروس چیف جسٹس کو مخالفوں کا حلیف و حمایتی قرار دے کر استعفیٰ کا مطالبہ کرنا شروع کردیا۔ صدر پاکستان کا تعلق ایک سیاسی جماعت سے ہے اور وزیر اعظم کا تعلق دوسری سیاسی جماعت سے ہے۔ لہذا وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان اکثر صدر پاکستان کو اپنی جماعت کے حمایتی اور ناجانے کیا کیا القابات سے نوازتے ہیں۔
قارئین کرام جب ہم نے ہی اپنے پیارے وطن کے تمام اعلی عہدے داروں کو کرپٹ ،چور، سازشی ملی بھگت کرنے والے اور بے وقعت و بے توقیر ثابت کردیا ہے تو قوموں کے معاشرے میں ہمارا کیا مقام رہ گیا ہے۔ بین الاقوامی کمیونٹی ہمارے بارے میں کیا رائے رکھتی ہو گی۔ جس ملک کے صدر مملکت بقول وزیر داخلہ کے کوئی اوقات نہیں رکھتے تو اس ملک کے وزیر داخلہ صاحب خود سوچیں کہ اس ملک کے ان سمیت کسی بھی وزیر کی حیثیت کیا ہو گی اور پھر اس قوم کے کسی فرد کی انٹرنیشنل کمیونٹی میں اٹھتے بیٹھتے کتنی عزت کی جاتی ہو گی اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ آپ نے دیکھا نہیں کہ اب دنیا کے کسی بھی ملک کا سربراہ کم ہی ہمارے ملک کا دورہ کرتا ہے اور ہم نے جن کو خود چور، کرپٹ اور بے وقعت ثابت کردیا ہے ان کو بھی کوئی اپنے ملک میں ویلکم کرنے کو تیار نہیں۔ رہ گئی عدلیہ تو جس کے چیف جسٹس کو وہ کچھ ثابت کردیا گیا جو کہ دن رات کیا جارہاہے اور سینئر ججوں پر جس قسم کے الزامات لگائے گئے ہیں تو اب کوئی چور، اچکا، قاتل اور دہشت گرد اپنے خلاف آنے والے کسی فیصلے کو کس بنیاد پر مانے گا۔ 
راقم تو دْکھے ہوئے دل کے ساتھ بس یہ سوچتاہے کہ جس ملک کے اعلی ترین عہدے دار ویسے ہیں جیسے کہ ہمارے سیاست دان انھیں ثابت کررہے ہیں تو اس ملک میں ہم جیسے ناچیزوں کی کیا حیثیت اور وقعت ہے۔ 
 پھر تے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
 اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی 
ہماری تو یہ التجاہے کہ اے ہمارے سیاست دانوں خدارا غفورے کی بیوی جتنی ہی بصیرت پیدا کرلو اور دن رات اپنی ہی بے توقیری اور ذلت کے راگ الاپنا بند کردو۔ کوئی ایسا نظام بنا ؤ کہ جو ویسا ہے جیسا تم ایک دوسرے کو کہتے ہو تووہ ان اعلی عہدوں پر فائز نہ ہوسکے جو کسی بھی قوم کی عزت و آبرو کی علامت ہوتے ہیں۔ اور جو ان عہدوں پر پہنچ جائیں۔ اگر کوئی ان میں خامی دیکھو تو ایکشن لو ، تحقیق کرو مگر اس کا ڈھنڈورا نہ پیٹو کہ اپنی قیمض اٹھانے پر اپنا ہی پیٹ ننگا ہو گا۔ غفور ے کی بیوی تو میٹرک پاس تھی لہذا اس نے غفورے کو چوہدری عبدالغفور صاحب بنا دیا آپ بھی خداکے لیے میٹرک ہی پاس کرلو۔

مزیدخبریں