مظہر العجائب ،امیر المومنین حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ

(یوم شہادت:۔۲۱ رمضان المبارک)
 ملک محبوب الرسول قادری

mahboobqadri78
آپ کے والد بزرگوار ابوطالب بنو ہاشم کے نامور سردار اور سرورکائنات ؐ کے پیارے چچا تھے۔ آپ  کی والدہ کانام فاطمہ بنت اسد بن ہاشم ہے۔ جب حضرت فاطمہ بنت اسد نے رحلت فرمائی تو خود امام الانبیاء ؐ نے اپنی قمیض اُتار کر انہیں اس کا کفن دیا اور قبر میں خود لیٹ کر اس کو برکت عطا کی۔ حضرت سہل بن سعد کے مطابق حضرت علیؓ کو اپنی کنیت ’’ابوتراب‘‘ بہت پسند تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ بارگاہ رسالت ؐ کی خاص عنایت تھی۔ ایک دن کسی وجہ سے حضرت سیدہ فاطمہ سے شکررنجی کے سبب حضرت علیؓ مسجد میں لیٹ گئے اور آپ کے وجودِ مسعود پر مٹی لگ گئی۔ رحمت عالمؐ تشریف لائے اور خود اپنے نورانی ہاتھوں سے مٹی جھاڑتے اور فرماتے اُٹھو اٹھو! ابو تراب اُٹھو، اٹھو ابو تراب اٹھو۔ حضرت علی ؓ مکہ مکرمہ میں ۱۳ رجب المرجب کو ہجرت سے دس سال قبل کعبۃ اللہ کے اندر پیدا ہوئے ۔ حضور رحمت عالم ؐکے آنے سے پہلے آنکھیں تک نہ کھولیں جب آنکھ کھولی تو چہرہ مصطفی ؐ سامنے تھا۔ سوموار کے روز حضور رحمت عالم  نے اعلان نبوت کیا اور منگل کے دن حضرت  علیؓنے خدا کی وحدانیت اورمحمد ِ مصطفیؐ کی رسالت کی گواہی دے دی۔ بظاہربچوں میں سب سے پہلے مسلمان ہوئے جبکہ حقیقتاً روزِ اوّل سے جناب رسول اللہؐکے موئید تھے۔
ابن سعد نے لکھا کہ حضرت علی ؓ نے بچپن میں بھی کبھی بُت پرستی نہیں کی تھی۔ آپ کی پرورش خود رسالت مآب ؐ نے فرمائی۔ جنگ احد میں آپ کوسولہ زخم آئے ، کئی مرتبہ غزوات میں حضورؐ نے آپ کو پرچم عطا فرمایا ۔ غزوہ تبوک کے علاوہ آپ تمام غزوات میں شریک ہوئے اور تبوک میں بھی اس لیے نہ گئے کیونکہ انہیں حضور ؐ نے اپنا نائب بنا کر مدینہ منورہ میں چھوڑا۔ جب حضرت علی ؓکے جذبۂ جہاد نے مجبور کیا تو بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے ، رو کر عرض کی کہ آقا ؐ !آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑے جا رہے ہیں ۔ فرمایاکہ ۔۔۔اے علی ! کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ میں تجھے اس طرح چھوڑے جا رہا ہوں جس طرح حضرت موسیٰ ؑ حضرت ہارون ؑکو چھوڑ گئے تھے لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی شب حضرت علیؓ کو حضورؐ نے اپنے بستر پر سلایا۔ آپ  بڑے جری، انتہائی شجاع اور بہادر تھے۔ جنگ خیبر کے موقع پر رحمت عالم ؐ نے اہتمام کے ساتھ پرچم اسلام حضرت علیؓ کے ہاتھوں میں دے کر کامیابی وکامرانی کی پیشین گوئی فرمائی۔ آپ نے شجاعت کے وہ جوہر دکھائے کہ جس کی مثال ملنا محال ہے ۔ باب خیبر جسے بعد میں ۴۰صحابہ کرام مل کر گھسیٹ کر دوسری جگہ منتقل کرتے تھے ،مولا علی ؓ نے فتح کے وقت اس کو اکیلے پکڑ کر دور پھینکا۔
حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھے حضور  نے یمن کی طرف بھیجنا چاہا تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ؐ مجھے زیادہ تجربہ نہیں شاید میں معاملے طے نہیں کر سکوں گا، یہ سن کر حضورؐ نے فرمایا کہ میرے پاس آ پھر حضور ؐ نے میرے سینے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا: الٰہی اس کے سینے کو روشن کر دے اور زبان کواستقلال مرحمت فرما دیجیے۔ اس کے بعد مجھے معاملات طے کرنے میں کبھی دشواری پیش نہیں آئی ۔ پھر وہ مرتبہ پایا کہ حضورؐ نے فرمایا کہ میں علم کا شہر ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ ہیں ۔ حضرت علیؓ سخاوت اور عبادت میں خوف خدا کے سامنے ہمیشہ سجدہ ریز رہتے ۔ در سے کبھی کوئی سوالی خالی ہاتھ نہ لوٹا جو آیا اُمید سے زیادہ دامن بھر کر گیا۔
حضرت علی ؓ سب سے زیادہ بہتر فیصلہ کرنے والے تھے۔ یہ بھی روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ اس وقت سے پناہ مانگتے تھے جب کوئی معاملہ پیش آجائے اور علیؓ موجود نہ ہوں۔ ایک مرتبہ کچھ لوگوں نے بارگاہ رسالت مآبؐ میں حضرت علیؓ کی شکایت کی تو آپؐ نے جواباً ارشاد فرمایا خبردار۔۔۔’’۔۔۔ علی کی شکایت ہرگز نہ کرنا وہ خدا کے معاملات میں بڑے سخت ہیں۔۔۔‘‘۔۔۔ حضرت سعید بن مسیب ؓ فرماتے ہیںکہ مدینہ منورہ میں حضرت علی ؓ کے سوا کوئی ایسا نہ تھا جو کہہ سکے کہ جو چاہو مجھ سے پوچھو۔
حضرت علی ؓ خود کہتے ہیں کہ حضورؐ نے مجھے بتایا کہ ۔۔۔ ’’۔۔۔مومن تجھ سے محبت رکھے گا اور منافق بغض رکھے گا۔۔۔‘‘۔۔۔ حضرت ابوسعیدؓ کہتے ہیں کہ ہم منافق کو  علی ؓ کے بغض سے پہچان لیتے ہیں ۔ مواخات مدینہ کے وقت جب حضور ؐنے تمام صحابہ کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا ۔ یعنی مہاجرین اور انصار صحابہ میں بھائی چارہ قائم فرمایا تو حضرت علی ؓ رو پڑے کہ میرے آقا ومولاؐ !آپ نے مجھے کسی کا بھائی نہیں بنایا ۔ حضور ؐ نے فرمایا کہ۔۔۔ اے علی ؓ! تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو۔ ۔۔حضرت زید بن ارقمؓ کی ایک روایت امام ترمذی نے نقل فرمائی ہے، سرکار دوعالم ؐ فرماتے ہیں کہ ۔۔۔’’جس کا میں محبوب ہوں اس کا علی محبوب ہے‘‘جس کا میں مولا اس کا علی مولا ہے۔۔۔ ایک مرتبہ حضورؐ نے فرمایا کہ مجھے چار آدمیوں سے محبت کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور خبر دی گئی کہ اللہ تعالیٰ بھی ان سے محبت رکھتا ہے ۔ان چار آدمیوں میں علی، ابوذر، مقداد اور حضرت سلمان فارسی ؓشامل ہیں ۔ حضور ؐ نے ارشاد فرمایا کہ حق کے ساتھ علی ہے اور علی کے ساتھ حق ہے۔ آپ ؐ ہی کا ارشاد گرامی ہے کہ علی قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی کے ساتھ ہے ۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا کہ ۔۔۔’’۔۔۔مختلف لوگ مختلف درختوں کی شاخیں ہیں لیکن میں اور علی ایک ہی درخت سے ہیں۔۔۔‘‘۔
طبرانی میں مختلف صحابہ کی روایت موجود ہے کہ حضورؐنے فرمایا کہ الٰہی جوشخص علی سے محبت رکھے۔ اے اللہ ! تو بھی اس سے محبت رکھ اور جو علی سے بغض رکھے تو بھی اس سے نفرت فرما ۔ حضرت علیؓ پر خارجیوں میں سے ایک خارجی نامراد عبد الرحمن ابن ملجم المرادی نے ۱۸ رمضان المبارک کو صبح کی نماز کے وقت کوفہ کی جامع مسجد میں حملہ کیا اور شدید زخمی کر دیا۔ آپ نے شب یک شنبہ ۲۱ رمضان المبارک کو شہادت پائی ۔کسی نے خوب کہاکہ    ؎
کسے  را  میسر  نہ  شد  ایں   سعادت
بہ  کعبہ   ولادت  بہ  مسجد  شہادت

ای پیپر دی نیشن