آج (12 اپریل کو) آئینِ پاکستان کے وجود میں آنے کا دن ہے۔ 10 اپریل 1973ء کو قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر آئین کی منظوری دی گئی جو 12 اپریل 1973ء کو اسمبلی کے صدر ذوالفقار علی بھٹو کے دستخط کرنے کے بعد ایک مصدقہ دستاویز بن گیا جس کا نفاذ 14 اگست 1973ء سے ہوا۔ سیاسی اعتبار سے یہ آئین ریاست پاکستان کے لیے وہ مقدس اور رہنما دستاویز ہے جس کے مطابق ملک میں قانون سازی بھی ہوتی ہے اور ریاست کا کاروبار بھی چلایا جاتا ہے۔ یوں یہ دستاویز سیاسی حوالے سے ملک کی سب سے اہم دستاویز ہے جس سے ٹکرانے والا ہر قانون، قاعدہ اور ضابطہ ریاست کی نظر میں قابلِ قبول نہیں ہوگا۔ اس آئین کو ملک کی غالب اکثریت کے مذہبی جذبات و احساسات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے یہ طے کیا گیا کہ پاکستان میں ایسی کوئی قانون سازی نہیں کی جاسکتی جو قرآن و سنت کے منافی ہو۔
قومی سطح پر رواں ماہ میں آئین کا جشنِ طلائی تو منایا جارہا ہے لیکن یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ پارلیمانی نمائندوں کے اتفاقِ رائے سے وجود میں آنے والا یہ آئین آج تک ملک میں پوری طرح نافذ نہیں ہوسکا اور اس کی واضح ترین مثال یہ ہے کہ اس ملک میں آج بھی اردو کی بجائے ایک غیرملکی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے حالانکہ آئین نے ریاست کو اس بات کا پابند کیا تھا کہ پندرہ برس کے اندر یعنی 14 اگست 1988ء سے پہلے قومی زبان اردو کو ملک میں سرکاری اور دیگر مقاصد کے لیے نافذ کیا جائے۔ اس سلسلے میں مقتدرہ قومی زبان کے نام سے اکتوبر 1979ء میں ایک ادارہ بھی قائم کیا گیا لیکن آج ساڑھے چار دہائیاں گزرنے کے بعد حالت یہ ہے کہ وہ ادارہ اتھارٹی کے درجے سے کم ہو کر ایک وزارت کا ذیلی حصہ بن چکا ہے اور اردو کے بطور سرکاری زبان نفاذ کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔
سیاسی معاملات میں بھی ایسی ہی صورت پیش آئی کہ جنرل محمد ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کی شکل میں دو فوجی آمروں نے آئین کو پامال کرتے ہوئے نہ صرف اقتدار پر قبضہ کیا بلکہ ایسی پالیسیاں اختیار کیں جن کی وجہ سے پاکستان مسلسل مسائل میں گھرتا چلا گیا۔ جمہوری عمل کو روک کر ان دونوں فوجی آمروں نے ملک کے ایسے مسائل پیدا کیے جن کے لیے انھیں کبھی معاف نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح پہلے جنرل ضیاء نے افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف امریکا کا ساتھ دے کر مسائل کا ایک انبار پاکستان کی جھولی میں ڈال دیا اور پھر جنرل مشرف نے افغانستان میں امریکا ہی کے تیار کردہ طالبان کے مقابلے میں امریکی فوج کا ساتھ دے کر ملک کو دہشت گردی کی آگ میں جھونک دیا۔ ان دونوں فوجی آمروں کی غلط پالیسیوں کی سزا یہ ملک آج تک بھگت رہا ہے اور حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں کوئی یہ نہیں بتاسکتا کہ ان کی پالیسیوں کی وجہ سے ہم کب تک مزید عذاب سہتے رہیں گے۔
جنرل ضیاء اور جنرل مشرف سے پہلے جنرل محمد ایوب خان نے بھی 1956ء کے آئین کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا تھا۔ اکتوبر 1958ء میں اقتدار پر قبضہ کرتے ہی انھوں نے اس آئین کو معطل کردیا جو تقسیم کے تقریباً نو برس بعد وجود میں آیا تھا اور اسے نافذ ہوئے ڈھائی سال کے لگ بھگ ہوئے تھے۔ جنرل ایوب کے دورِ حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے ہی پاکستان مسلسل امریکا کے چنگل میں پھنستا چلا گیا۔ 1958ء میں امریکا کو پشاور کے قریب بڈھ بیر میں سوویت یونین کی جاسوسی کے لیے اڈا دینے کا فیصلہ آج تک پاکستان کے گلے پڑا ہوا ہے اور اس کی وجہ سے ہم اپنا بے حساب جانی و مالی نقصان کروا چکے ہیں لیکن اس سلسلے میں کسی کا احتساب نہیں ہوا۔ آئین شکن جرنیلوں کو امریکا نے جس طرح آشیرباد دی اس سے بعد میں آنے والوں کے بھی حوصلے بلند ہوئے اور انھوں نے احتساب کے ڈر سے پوری طرح بے فکر ہو کر آئین شکنی کی۔
آئین کے جشنِ طلائی (گولڈن جوبلی) کے موقع پر سماجی رابطے کے ذریعے ٹوئٹر پر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے قوم کو مبارکباد دیتے ہوئے یہ تو کہا کہ آ ئیں عہد کریں کہ اگلے 50 سال ماضی کے 50 سال کی غلطیوں کا ازالہ ہوں گے، قوم کے دکھوں کا مداوا ہوں گے لیکن ان سے پوچھا یہ جانا چاہیے کہ عہد شکنی کرتا کون ہے؟ کیا طالع آزماؤں کو عوام کی طرف سے حمایت ملتی ہے جس سے شہ پا کر وہ اقتدار پر قابض ہو جاتے ہیں؟ یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ ہماری سیاسی قیادت میں ہی ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے فوجی آمروں کو اپنے کندھے مہیا کیے جن پر سوار ہو کر وہ مسلسل آئین شکنی کرتے رہے۔ ایسے لوگ آج بھی سیاست میں موجود ہیں جو دھڑلے سے کہتے رہے کہ وہ دس بار ایک فوجی جرنیل کو وردی سمیت اس ملک کا صدر بنائیں گے، اور ان لوگوں کی موقع پرستیوں کی سزا ملک اور عوام بھگتتے رہے اور اب تک بھگت رہے ہیں۔
حزبِ اختلاف میں بیٹھی ہوئی سیاسی قیادت نے ہر دور میں ایوانِ اقتدار تک پہنچنے کے لیے جس طرح غیر جمہوری قوتوں سے رجوع کیا وہ افسوسناک ہی نہیں بلکہ قابلِ مذمت بھی ہے اور یہ عمل آئین کی روح سے انحراف تھا۔ کسی بھی ملک میں آئین کو ریاستی معاملات کے لیے مقدس ترین دستاویز سمجھا جاتا ہے اور پاکستان میں بھی باتوں کی حد تک تو ایسا ہی ہے لیکن سیاست دان اس اصول پر عمل ہرگز نہیں کرنا چاہتے۔ پاکستان آج جن معاشی مسائل میں گھرا ہوا اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ سیاسی قیادت آئین کو اپنا رہنما مان کر اس کے مطابق فیصلے کرنے کی بجائے چور راستے تلاش کرتی ہے جس سے وقتی طور پر تو انھیں فائدہ پہنچ جاتا ہے لیکن ملک اور عوام کو طویل مدتی تناظر میں اس سے بہت نقصان پہنچتا ہے۔ قومی سطح پر اس وقت جو سیاسی کشمکش جاری ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہر فریق دوسرے کو آئین کے تابع لانا چاہتا ہے لیکن خود کو ماورائے آئین سمجھتا ہے۔
سوموار کو آئین کے جشنِ طلائی کی نسبت سے قومی اسمبلی کے سپیکر راجہ پرویز اشرف نے یادگارِ دستور کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ 10 اپریل 1973 ء پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ناقابل فراموش دن ہے جب قوم کو پارلیمانی، وفاقی اور اتفاق رائے پر مبنی آئین سے نوازا گیا۔ اس موقع پر انھوں نے درست کہا کہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی جمہوری، وفاقی، اسلامی اور اتفاق رائے پر مبنی آئین کی حقیقی روح کے نفاذ سے جڑی ہوئی ہے لیکن سوال یہ ہے کیا تمام سیاسی قیادت آئین کا نفاذ چاہتی ہے؟ کیا سیاست دان ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے اب ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر یہ وعدہ کرنے کو تیار ہیں کہ آئندہ وہ کسی غیر جمہوری قوت سے ہاتھ ملا کر ایوانِ اقتدار تک پہنچنے کی کوشش نہیں کریں گے؟ کیا سیاسی قیادت آئین کو رہنما دستاویز مان کر ملک اور عوام کے وسیع تر مفاد کے لیے اپنے انفرادی و گروہی مفادات قربان کرنے کو تیار ہے؟
وزیراعظم محمد شہباز شریف کا جشنِ طلائی کے موقع پر یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ ہمارے سیاسی زعماء نے محاذ آرائی کی بجائے مفاہمت کا راستہ اپنا کر 1973ء کا متفقہ آئین مرتب کرکے تاریخ رقم کی لیکن آج سیاسی قوتیں جس طرح ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا ہیں اس سے قوم کو یہ پیغام مل رہا ہے کہ سیاسی مخالفت اصل میں ذاتی دشمنی ہے جس کے لیے مخالف کچھ بھی کہنا اور کرنا جائز ہے ۔ اس وقت پارلیمان میں جو بڑی جماعتیں موجود ہیں ان میں سے ایک پاکستان پیپلز پارٹی بھی ہے جس کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے آئین سازی کے سلسلے میں تاریخی کردار ادا کیا اور اسی جماعت کے موجودہ شریک چیئرمین آصف علی زرداری پارلیمان کو مضبوط اور مستحکم بنانے کے لیے 2010ء میں آئین کی شق 58 (2)ب کو ختم کرا کے صدرِ مملکت کے اختیارات کو محدود کیا حالانکہ وہ خود اس وقت صدر تھے۔ آج بھی ہمیں ایسے ہی کردار اور قربانیوں کی ضرورت ہے تاکہ ملک کو اس منجدھار سے نکالا جاسکے جس میں وہ پھنسا ہوا ہے۔
جشنِ طلائی کے موقع پر ہمیں صرف ان لوگوں کو ہی یاد نہیں کرنا چاہیے جنھوں نے انتھک کاوشوں کے نتیجے میں ایک متفقہ آئین بنا کر اس قوم کے آگے بڑھنے کے لیے راستہ ہموار کیا بلکہ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ آج ہم اس آئین کے تقاضوں کے مطابق عمل کر کے اس ملک کو کس طرح ایک خوشحال اور ترقی یافتہ ریاست بنا سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے اہم کردار سیاسی قیادت نے ادا کرنا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ 10 اپریل کے روز ایک کل جماعتی کانفرنس بلائی جاتی جس میں پارلیمان کے اندر اور باہر موجود تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کو ایک جگہ اکٹھا کیا جاتا اور وہ سب مشاورت سے یہ طے کرتے کہ ملک کو موجودہ سنگین حالات سے کیسے نکالنا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ فیصلہ بھی کیا جاتا کہ آئندہ کسی بھی صورتحال میں کوئی بھی سیاسی جماعت یا شخصیت کسی غیر جمہوری قوت کا ساتھ نہیں دے گی اور ملک اور عوام کے وسیع تر مفاد کے راستے میں ذاتی انا یا سیاسی اختلافات کو رکاوٹ نہیں بننے دیا جائے گا۔
آئین کا جشنِ طلائی اور پاکستان کے سیاسی مسائل
Apr 12, 2023