پاکستان کی تاریخ میں بنتے اور بگڑتے دستور جن کو موقع پرستوں اور آمروں نے اپنی منشا کے مطابق ترامیم کر کے ملک میں آئینی بحران پیدا کئے ، نوبزادہ نصراللہ مرحوم اکثر دستورسازی پر طنزیہ کہا کرتے تھے کہ ’’ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا بیشتر حصہ دستور سازی اور دستور شکنی پر مشتمل ہے ‘‘اس پر ایک مصرع بھی داغ دیا کرتے تھے کہ
میں ترا چراغ ہوں جلائے جا بجھائے جا
12 ، اگست 1947 ء کو بانی پاکستان محمد علی جناح کو اسمبلی اجلاس میں ’’ قائدِ اعظم ‘‘ کے سرکاری خطاب دینے کی منظور ی دی گئی 14 ، اگست 1947ء کو اس خصوصی اجلاس کے آخری دن وائسرائے ہند لارڈ ما?نٹ بیٹن نے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کو آزادی کی مبارک باد دی ، اسی رات بارہ بجے سرکاری طور پر پاکستان ایک آزاد ملک کی حیثیت سے معرضِ وجود میں آیا ، اس اجلاس میں طے پایا تھا کہ جب تک پاکستان کا مستقل آئین تیار نہیں ہوتا اس وقت تک گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1953 ء کو بعض ترامیم کے ساتھ پاکستان کے آئین کی شکل دی جائے ، قائدِ اعظم نے جلد از جلد ایک عبوری آئین کو تیار کرنے پر زور دیا لیکن ایک جماعتی دستور ساز اسمبلی سات سال میں آئین سازی نہ کر سکی۔
ایک رات کا آئین 1954 ء میں بنا جس کی عمر صبح ہونے تک تھی، پاکستان کے قیام کے نو سال بعد پاکستان کا پہلا آئین متفرق شقوں اور قراردادوں کی بنیاد پر مرتب ہوا ،جسے صدر اسکندر مرزا کی توثیق کے بعد 23 ،مارچ 1956 ء کو نافذ کیا گیا ، مشرقی اور مغربی پاکستان میں جشن منایا گیا لیکن یہ آئین اپنے نفاذ کے دو سال چھ ماہ بعد 7 ، اکتوبر 1958 ء کو مارشل لاء کے تحت ختم کر دیا گیا، اس برہنہ مارشل لا کو سیاسی جامہ 1962 ء کے شخصی دستور کی شکل میں پہنا کر نافذ کر دیا۔
مشرقی و مغربی پاکستان میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر 7، دسمبر 1970 ء میں پہلے عام انتخابات ہوئے ، جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمن کی پارٹی عوامی لیگ اکثریت سے کامیاب ہوئی تھی، اور مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کی تھی، ، 25 ،مارچ ، 1969 ء کے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کے بعد 16 ، دسمبر 1971 ء کو پاکستان دو لخت ہوا تو ملک میں مارشل لا ڈکٹیٹر جنرل یحییٰ خان مسندِ صدارت پر براجماں تھے۔
سقوط ڈھاکہ کے بعد یحییٰ خان نے مارشل لا عوامی منتخب نمائندے ذوالفقار علی بھٹو کے سپرد کر دیا،اس وقت پاکستان میں کوئی آئین یا دستور نہیں تھا ملک آمروں کی من مانیوں اور ان کے بنائے دستور کے زیرِ عتاب تھا ، بھٹو کو وراثت میں مارشل لا کے تحت غیر جمہوری اور نا پسندیدہ لقب جو ملا وہ’’ سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ‘ کا تھا جو کہ دنیا کی تاریخ کا منفرد واقعہ ہو گزرا ہے۔
مارشل لاء کے طوق کو گلے سے اتارنے کے لئے قانونی اور آئینی طریقہ کار کو اپنانے کے لئے بھٹو نے عبوری آئین کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی جس کے سربراہ میاں محمود علی قصوری تھے ،پانچ ماہ کی قلیل مدت میں عبوری آئین بنا جو سابقہ دونوں دستوروں 1956 ء اور 1962 ء کی طرح صدارتی دستور تھا ، 14 ، اپریل 1972 ء کو قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں بھٹو صدر، وزیرِ خارجہ، وزیر داخلہ، اسپیکر اسمبلی اور وزیر دفاع منتخب ہوئے 17،اپریل 1972 ئ میں اسمبلی نے عبوری آئین منظور کیا جس کے 21 ، اپریل 1972 ء کو نافذ ہونے کے بعد 25 ، مارچ 1969 ء سے جاری مارشل لاء کا اختتام ہوا۔
مار شل لائ کے اٹھنے کے بعد بھٹو حکومت کے لئے سب سے اہم دستور کا مسودہ تیار کرنا تھا ، جس کے لئے بھٹو نے پندرہ رکنی کمیٹی بنائی ، آٹھ ماہ کی قلیل مدت میں آئینی کمیٹی نے اپنی رپورٹ تیار کی جو کہ 10، اپریل 1973 ء کو اسمبلی میں پیش کر دی گئی ، وفاقی اسمبلی میں آئین کی تمام دفعات پر سیاسی اور دینی جماعتوں نے بحث مباحثے کے بعد اتفاق رائے سے 135 ووٹوں کی اکثریت سے متفقہ آئین منظور کیا، جو 14، اگست 1973ء کو نافذالعمل کر دیا گیا۔
اس متفقہ آئین پر نواب خیر بخش مری اور احمد رضا قصوری سمیت 9 ارکانِ قومی اسمبلی نے دستخط نہیں کئے تھے ، اس اتفاق رائے سے منظور ہونے والے دستور میں 1977 ء تک 7، ترامیم ہو گئیں تھیں ، قادیانیوں والی ترمیم اور ایک دوسری ترمیم متفقہ طور پر منظور ہوئیں باقی پانچ اکثریت کے زور پر پاس ہوئیں، جنرل ضیاء الحق نے 985 1 ء کی غیر جماعتی اسمبلی سے 8ویں ترمیم کر وا کرآئین کی پارلیمانی حیثیت کو متنازع بنا دیا ، جس میں آئین کے آرٹیکل 58/2B کی ترمیم سے حکومت کی بر طرفی اور اسمبلی کی تحلیل کے علاوہ صدر گورنروں اور سروس چیفس کی تقریوں کے اختیارات حاصل کر لئے ، اس ترمیم کی زد میں 1996 ء تک چار وزرائے اعظم اور ان کی اسمبلیاں نشانہ بنیں، 1997 ء میں نواز شریف دوبارہ مسندِ اقتدار پر براجماں ہوئے تو انہوں نے دستور میں 13 ویں ترمیم کی۔
2002 ء میں دستور میں 17ویں ترمیم ہوئی ، 2008 ء میں آئین میں 18 ویں ترمیم کے ساتھ 21 ویں ترمیم جس سے فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں آیا ، اسی طرح اس ملک پاکستان میں بنتے اور بگڑتے دستو ر آمرانہ اور سیاسی کھلواڑ کا شکار ہوتے رہے ہیں آج ہم اسی دستور کی گولڈن جوبلی منا رہے ہیں۔
٭…٭…٭
بنتے اور بگڑتے دستور
Apr 12, 2023