1973 کا آئین نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں۔ پاکستانی قوم کے لیے دلی مسرت کی بات ہے کہ ہمارا متفقہ آئین ’عسکری حملوں‘ کے باوجود آج بھی زندہ اور سلامت ہے۔ سقوطِ ڈھاکہ کے المیے کے بعد جنرل یحییٰ خان نے مارشل لاء کے رائج قوانین کے مطابق اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کو منتقل کردیا اور وہ پاکستان کے صدر اور قوانین کی مجبوری کے تحت سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ انھوں نے چند ماہ بعد صدارتی نوعیت کا عبوری آئین نافذ کرکے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا منصب چھوڑ دیا۔ راقم 1972ء میں پی پی پی پنجاب کا سیکرٹری اطلاعات تھا اور وفاقی کابینہ کے سینئر وزیر بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید کے قریب تھا۔ قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس 14 اپریل 1972ء کو سٹیٹ بینک بلڈنگ کراچی میں ہوا جس میں مغربی پاکستان کے 144 اور مشرقی پاکستان کے 2 اراکین نور الامین اور راجہ تری دیو رائے نے شرکت کی۔ قومی اسمبلی نے پاکستان کے نئے آئین کی تیاری کے لیے قرارداد منظور کی۔
پاکستان کے وزیر قانون میاں محمود علی قصوری کی سربراہی میں 25 رکنی آئین ساز کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں اپوزیشن کے 6 اراکین شامل تھے۔ میاں محمود علی قصوری نے آئین سازی کے سلسلے میں اصولی اختلافات کی بناء پر 9 اکتوبر 1972ء کو وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وزیر کی تنخواہ سے ان کے گھریلو اخراجات پورے نہیں ہو رہے تھے جبکہ نامور وکیل کی حیثیت سے ان کی آمدنی بہت زیادہ تھی جو وزارت کی وجہ سے بند ہو گئی تھی۔ میاں محمود علی قصوری نے آئین سازی کے لیے قابل ذکر بنیادی کام کیا۔ عبدالحفیظ پیرزادہ پاکستان کے نئے وزیر قانون اور آئین ساز کمیٹی کے نئے سربراہ نامزد ہوگئے۔ ’اسلام ہمارا دین ہے، سوشلزم ہماری معیشت ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے، طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں ‘ پی پی پی کے انتخابی منشور کے بنیادی اصول تھے۔ اپوزیشن کی مذہبی جماعتوں نے سوشلزم کے سلوگن کی وجہ سے پی پی پی کے خلاف کفر کے فتوے جاری کر رکھے تھے۔
شیخ رشید پی پی پی میں سوشلزم کے ترجمان تھے۔ ان کا موقف تھا کہ پی پی پی سوشلزم کے نعرے کی وجہ سے انتخابات جیتی ہے اور جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل میاں محمد طفیل خود ان کے مقابلے میں لاہور کے انتخابات میں بھاری ووٹوں سے شکست کھا گئے تھے لہٰذا پی پی پی کا حق ہے کہ پاکستان کا نیا آئین سوشلسٹ اصولوں کے مطابق تیار کیا جائے اور سوشلزم کا لفظ آئین میں شامل کیا جائے۔ اپوزیشن کی مذہبی جماعتوں نے اس موقف کی سخت مخالف کی۔ شیخ رشید اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور آئین میں آرٹیکل نمبر 3 شامل کرانے میں کامیاب ہوگئے جو روس کی کمیونسٹ پارٹی کے منشور سے اخذ کیا گیا تھا جس کے مطابق قرار دیا گیا کہ ’ریاست استحصال کی تمام صورتوں کا خاتمہ کرے گی اور اس بنیادی اصول کو یقینی بنائے گی کہ ہر کسی سے اس کی اہلیت کے مطابق کام لیا جائے گا اور اس کے کام کے مطابق معاوضہ دیا جائے گا‘۔ مذہبی جماعتیں تسلیم کروانے میں کامیاب ہو گئیں کہ ریاست کا مذہب اسلام ہوگا پاکستان کا صدر اور وزیراعظم مسلمان ہوگا۔ قرآن اور سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا۔ اسلامی نظریاتی کونسل تشکیل دی جائے گی جو پاکستان میں رائج قوانین کا جائزہ لے گی اور انھیں قرآن و سنت کے مطابق بنانے کے لیے سفارشات پیش کرے گی۔ ریاست کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوگا ۔
اپوزیشن کے مطالبے پر ’قراردادِ مقاصد‘ کو آئین کے دیباچے میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ پی پی پی کی جانب سے تحریر کیا گیا کہ قائداعظم کے اعلامیہ کے مطابق پاکستان جمہوری ریاست ہوگا جس میں اسلام کے سماجی انصاف کے تصور کو یقینی بنایا جائے گا۔ 1973ء کا آئین انتہائی مشکل حالات میں بنایا گیا۔ ملک دو لخت ہو چکا تھا نوے ہزار قیدی بھارت کی قید میں تھے پاکستان کا ہزاروں مربع میل کا علاقہ دشمن کے قبضے میں تھا۔ اپوزیشن جماعتیں حکومت کے لیے مشکلات پیدا کر رہی تھیں۔ فروری 1973ء میں بلوچستان کی حکومت توڑ دی گئی جس کے ردعمل کے طور پر مولانا مفتی محمود نے خیبر پختونخوا کی حکومت کو بھی توڑ دیا۔ پی پی پی کے ممتاز لیڈر حیات شیرپاؤ بم دھماکہ میں شہید ہوگئے۔ 23 مارچ 1973ء کو اے این پی نے لیاقت باغ راولپنڈی میں ایک پبلک ریلی کی جس پر فائرنگ کی گئی جس میں ایک درجن افراد جاں بحق ہوگئے۔ اپوزیشن جماعتوں نے قومی اسمبلی کا بائیکاٹ کر دیا جس کی وجہ سے سنگین سیاسی اور پارلیمانی بحران پیدا ہوگیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی یہ خواہش تھی کہ پاکستان کا نیا آئین اتفاق رائے سے منظور کیا جائے تاکہ وہ ایک مستقل آئین کی شکل اختیار کر لے۔ تاریخ کے اس نازک مرحلے پر غلام مصطفی کھر، عبد الحفیظ پیرزادہ، الطاف حسن قریشی اور مصطفی صادق نے پرجوش اور سرگرم پس پردہ کوششیں کر کے اپوزیشن جماعتوں کو متفقہ آئین کے لیے آمادہ کیا۔ اس دوران ’چھڑی اور گاجر‘ کے اصول پر بھی عمل کیا گیا۔ اپوزیشن کے اراکین اسمبلی کو انتباہ کیا گیا کہ اگر وہ آئین سازی کے عمل میں شریک نہ ہوئے تو ان کے خلاف سنگین بغاوت کے مقدمات چلائے جائیں گے۔ اپوزیشن جماعتوں کے لیڈر آئین کی منظوری سے ایک دن پہلے بائیکاٹ ختم کر کے قومی اسمبلی میں واپس آنے پر رضامند ہوگئے۔ 10 اپریل 1973ء کو تمام پارلیمانی پارٹیوں کے قائدین اور اراکین نے 1973ء کے آئین پر دستخط کر دیے صرف چند اراکین اسمبلی غیر حاضر رہے۔ اس طرح پاکستان کے عوام کو پہلا متفقہ جمہوری آئین مل سکا-
٭…٭…٭