آئین پاکستان 1973 ئ‘ عظیم کارنامہ ؟

Apr 12, 2023

سارہ کائنات

.آئین کی روسے مسلمان سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ پاک کو ایک مانے، حضوراکرم محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کا آخری نبی تسلیم کرے۔ آسمانی کتابوں پر ایمان لائے ، فرشتوں، یوم آخرت اور انبیاء  علیہ السلام پر ایمان رکھے، اور جو شخص ختم نبوت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا منکر ہو وہ دائرہ اسلام سے خارج تصور کیا جائے گا۔آئین پاکستان کی باضابطہ منظوری دی۔آئین کے مطابق پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ 
پاکستان میں جمہوری پارلیمانی نظام حکومت نافذ ہو گا، وزیر اعظم حکومت کا سربراہ ہوگا اور اسے اکثریتی جماعت منتخب کرے گی۔ پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہے اور صدر اور وزیر اعظم کا مسلمان ہونا لازمی ہے۔ آئین کی رو سے عوام پاکستان کو مواقع دیے جائیں گے کہ وہ اپنی زندگیاں قرآن وسنت کے مطابق بسر کریں۔ قرآن مجید کی اغلاط سے پاک طباعت کے لیے خصوصی انتظامات کیے جائیں گے۔عصمت فروشی، جوا، سود اور فحش لٹریچر پر پابندی عائد کی جائے گی۔ آئین کے مطابق پاکستان کی قومی زبان اردو ہے، یہاں عربی زبان کو بھی فروغ دیا جائے گا طلبہ وطالبات کے لیے آٹھویں جماعت تک عربی تعلیم لازمی قرار دی گئی۔ آئین پاکستان میں عدلیہ کی مکمل آزادی کی ضمانت دی جاتی ہے۔ آئین میں ترمیم کے لیے ایوان زیریں میں دو تہائی اور ایوان بالا میں بھاری اکثریت کا ہونا ضروری ہے۔
1973 ء کا متفقہ آئین ہماری پارلیمانی تاریخ کا ایک بڑا کارنامہ ہے ، اس آئین میں جمہوریت، مساوات، رواداری، شخصی آزادی، اسلامی معاشرے کے قیام، اقلیتوں سے مساوی سلوک، بنیادی انسانی حقوق وغیرہ کی ضمانت فراہم کی گئی ہے اور خود دستور کے تحفظ کی شق بھی شامل کی گئی ہے۔ لیکن کیا خود حکمرانوں، سیاست دانوں، قانون سازوں نے اس دستور پر عمل کیا؟ قطعی نہیں۔ اس آئین کو بار بار مسخ کیا گیا، اس میں سیاسی و ذاتی مفادات کے تحت ترامیم اور قانون سازی کی گئی۔ اس کی توہین و تضحیک کی گئی، طاقت کے زور پر منہ چڑایا گیا اور اس کو ختم کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہیں اور آئین پاکستان موجود ہونے کے باوجود ،ریاست پاکستان میں قانون کا نفاذ بظاہر سب کیلئے برابر نہیں، یہاں امراء قانون سے بالاتر نظر آتے ہیں ، جبکہ دستور پاکستان میں مساوی انصاف کی فراہمی کی ضمانت دی گئی ہے،آرٹیکل 5 کے تحت ریاست سے وفاداری ہر شہری کی بنیادی ذمہ داری ہے۔وہ جہاں بھی رہے آئین اور قانون کی اطاعت کا پابند ہے۔ اسکے علاوہ آرٹیکل 52 واضع کرتا ہے کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ آرٹیکل 73ڈی کے مطابق عوام کو سستا اور فوری انصاف فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ آرٹیکل 83اے بلا تفریق جنس، رنگ و نسل عوام کی حالت بہتر بنانے کیلئے دولت اور پیداواری ذرائع کے چند ہاتھوں میں ارتکاز اور انکی عوامی مفاد کیلئے نقصان دہ غیر منصفانہ تقسیم سے منع کرتا ہے۔آرٹیکل 83بی کے مطابق ریاست دستیاب وسائل میں رہ کر ہر شہری کو روزی روٹی اور مناسب تفریح کے یکساں مواقع فراہم کرنے کی پابند ہے۔آرٹیکل 83ڈی کے مطابق ریاست شہریوں کو بلا تفریق روٹی کپڑا اور مکان، تعلیم، طبی سہولیات جیسی بنیادی ضروریات زندگی فراہم کرنے کی پابند ہے۔  آئین پاکستان کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور شہریوں کو ان کے حقوق اور ذمہ داریوں سے آگاہ کرنے کے لیے 1973 کے آئین کی گولڈن جوبلی منانے کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس 10 اپریل کو منعقد کیا جا رہا ہے۔ 
آئین وہ واحد دستاویز ہے جو قوم کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے۔ آئین پاکستان کی تیاری اور نفاذ ذوالفقار علی بھٹو کا عظیم کارنامہ ہے، جنہوں نے اس اہم ترین قومی مسئلے پر جراتمندانہ اقدام اٹھایا۔ اس طرح اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین 10 اپریل 1973 ء کو پارلیمنٹ کی جانب سے پاس کیا گیا، جبکہ 12 اپریل 1973 ء کو صدر پاکستان نے آئین پاکستان کی باضابطہ منظوری دی برسوں بعد آئین میں کی جانے والی اٹھارویں آئینی ترمیم اور میثاق جمہوریت کو پیپلز پارٹی کی تاریخی کامیابیاں تصور کیا جاتا ہے۔ 1956 کے آئین کی طرح لیکن 1962 کے آئین کے برعکس، 1973 کا آئین، پاکستان کو پارلیمانی طرز حکومت فراہم کرتا ہے۔ 1973 کے آئین میں ترمیم کے لیے پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت درکار ہے۔ آئین پاکستان کے شہریوں کو بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ آئین کے مطابق ریاست کا انتظامی اختیار وزیر اعظم کے پاس ہے جبکہ صدر مملکت جمہوریہ کے آئینی سربراہ ہیں۔
 1947 سے 1973 تک ملک میں مقننہ کا یک ایوانی نظام تھا۔ قائداعظم کی رحلت کے بعد 1956 کا پہلا آئین بنایا گیا جس پر آزادی پسندوں اور تحریک پاکستان کے رہنماؤں نے دستخط کیے تھے۔ بعد ازاں حکومت سنبھالتے  ایوب خان نے  ہی  آئین کو منسوخ کر دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالنے کے بعد مزدوروں، خواتین، صحافیوں، ادیبوں اور کسانوں سمیت زندگی کے تمام شعبوں کے لوگوں کو اکٹھا کیا۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو ہی تھے جنہوں نے متفقہ آئین دیا۔ دنیا بھر سے پارلیمنٹ کے سپیکرز کو تقریبات میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ حکومت نے گولڈن جوبلی منانے کے لیے صوبائی اور قومی سطح پر مختلف پروگرام ترتیب دیے ہیں۔ جمہوریت کے محافظوں کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے یہ تقریبات ’’وال آف ڈیموکریسی‘‘ سے شروع ہوئی ہیں۔ یہ دیوار پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران بنائی گئی تھی لیکن بعد کے ادوار حکومت میں اسے محدود علاقہ قرار دیا گیا۔ آئین پاکستان کی سال بھر جاری رہنے والی گولڈن جوبلی تقریبات کا آغاز پارلیمنٹ ہاؤس کی گرین بیلٹ پر نصب گمنام ہیروز کی یادگار ’’وال آف ڈیموکریسی‘‘ کے قریب ایک سادہ تقریب کے انعقاد سے ہوا۔ پارلیمنٹ ہاؤس میں ہونے والی افتتاحی تقریب کے مہمان خصوصی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری تھے۔ یادگار کی تعمیر ان گمنام ہیروز کو شاندار خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے کی گئی جنہوں نے ملک میں جمہوریت کے فروغ اور اسے برقرار رکھنے کے لیے بے مثال قربانیاں دیں۔ (جاری)

مزیدخبریں