آئین کی گولڈن جوبلی پر آئین سے کھلواڑ

اگرچہ قومی اسمبلی نے اس مملکت خدا داد  کے پہلے باضابطہ وفاقی پارلیمانی نظام والے آئین کے مسودے کی منظوری دس اپریل 1973ء کو دی تھی مگر یہ آئین صدر کے دستخطوں کے ساتھ 12 اپریل کو معرض وجود میں آیا۔ اس طرح آج 12 اپریل کا دن آئین پاکستان کی تخلیق کا دن ہے۔ ہم آج آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی اس وقت منا رہے ہیں جب اس آئین کی خالق پیپلز پارٹی اور پاکستان کی خالق مسلم لیگ کے ایک دھڑے کے مشترکہ اقتدار کے دوران آئین کے محافظوں اور شارحین کے ہاتھوں آئین کے ساتھ وہ کھلواڑ ہو چکا ہے کہ یہ آئین گذشتہ روز قومی اسمبلی کے گولڈن جوبلی کنونشن میں اپنے وجود میں گم سم کھڑا نظر آ رہا تھا۔ گذشتہ سال دس اپریل سے رواں سال دس اپریل تک بس آئین کا نوحہ ہی پڑھا گیا ہے، اس کے تقدس و پاسداری کے تقاضے کو تو ہوا بھی نہیں لگنے دی گئی۔ میں نے گذشتہ سال کے یومِ دستور کے موقع پر اپنے 12 اپریل کے کالم میں اس وقت سابق حکمران پی ٹی آئی کی جانب سے آئین کی بھد اْڑانے کا جو افسوسناک منظر دکھایا تھا آج اس منظر  میں مزید کثافت کی ملاوٹ یوں ہوئی ہے کہ آئین کی بھد اْڑانے کیلئے آج آئین کے محافظین شارحین بھی ہاتھ بٹاتے نظر آ رہے ہیں۔ اس فضا میں یہ منظر مزید گدلا ہوتا ہی نظر آرہا ہے۔ میرے گذشتہ سال 12 اپریل کے کالم کو ملاحظہ فرمائیے۔ آپ کو آئین کی حکمرانی و پاسداری کے معاملہ میں کچھ بھی بدلا ہوا محسوس نہیں ہو گا۔
اس بار دس اپریل کو یوم دستور اس ماحول میں منایا گیا جب حکمران پی ٹی آئی کی قیادت کی جانب سے دستور کی پامالی اور اس سے انحراف کے دانستہ اقدامات اٹھاتے ہوئے آئین کی حکمرانی کے مقابل اپنی فسطائیت کے جارحانہ انداز میں راستے نکالنے کی کوششیں کی جا چکی تھیں اور عدلیہ‘ الیکشن کمیشن اور سکیورٹی فورسز سمیت ریاستی آئینی اداروں کو رگیدتے ہوئے ’’جس کی لاٹھی، اسکی بھینس‘‘ والا ماحول گرمایا جا چکا تھا۔ پاکستان کے دستور کی تاریخ یقیناً کوئی زیادہ تابناک نہیں ہے۔ قیام پاکستان کے بعد یہ ارض وطن پہلے 9 سال تو ویسے ہی سرزمین بے آئین رہی اور ملک کا نظام نوآبادیاتی نظام والے قوانین کے تحت ہی چلایا جاتا رہا۔ بانی ٔ پاکستان قائداعظم کے ذہن میں آئین پاکستان کا ایک واضح اور روشن نقشہ موجود تھا اور وہ کتابِ ہدایت قرآن مجید میں وضع کردہ ضابطہ ٔحیات کی روشنی میں آئین پاکستان مرتب کرنے کا واضح عندیہ دے چکے تھے مگر انکی زندگی نے انہیں اسکی مہلت ہی نہ دی۔ وزیراعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ملک میں تیزی سے بدلتی حکومتوں کو بھی آئین مرتب کرنے کی مہلت نہ ملی اور پھر 1956ء میں پارلیمانی جمہوری آئین مرتب ہوا مگر دو سال بعد ہی 1958ء میں جنرل ایوب خان نے اس آئین کی گردن مروڑ کر ملک میں جرنیلی آمریت مسلط کر دی۔ انہوں نے 1962ء  میں صدارتی طرز حکومت پر مبنی آئین مرتب کراکے نافذالعمل کرایا جس کا محور انکی اپنی ذات تھی۔ یہ آئین یحییٰ خان کی جرنیلی آمریت کے دوران بھی 1971ء تک لاگو رہا اور پھر جرنیلی آمریتوں کا کڑوا پھل ہمیں 16 دسمبر 1971ئکو سانحہ سقوط ڈھاکہ کی شکل میں کھانا پڑا۔ 
چونکہ 1971ء کے عام انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی کو مغربی پاکستان میں واضح اکثریت حاصل ہوئی تھی اس لئے ملک کے دولخت ہونے کے بعد انہوں نے باقیماندہ پاکستان کا اقتدار سنبھال لیا اور ملک کا نظم و نسق پہلے چیف مارشل لاء  ایڈمنسٹریٹر اور پھر صدر مملکت کے طور پر چلانا شروع کیا۔ 1972ء  میں انہوں نے ملک میں عبوری آئین نافذ کرکے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا جس کیساتھ ہی انہوں نے اسمبلی میں وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کی بنیاد پر آئین پاکستان کی تیاری شروع کر دی۔ بلاشبہ یہ ان کا کریڈٹ ہے کہ انہوں نے قومی اسمبلی کے فورم پر 10 اپریل 1973ء کو آئین پاکستان متفقہ طور پر منظور کرالیا۔ یہی آئین اب تک ہونیوالی 25 ترامیم کا بوجھ اٹھاتے اور جرنیلی آمریتوں کے ہاتھوں دھکے‘ دھچکے کھاتے‘ مروڑے جاتے آج بھی رائج ہے اور ہر سال ہم 10 اپریل کو جیسے تیسے یوم دستور بھی منا لیتے ہیں مگر جرنیلی آمریتیں تو اپنی جگہ‘ کسی سول حکومت نے بھی آج تک صحیح معنوں میں آئین کی عملداری قائم نہیں ہونے دی۔ فوجی آمریتوں کے دوران تو ویسے ہی آئین معلق رہا اور انکے عبوری آئینی احکام (پی سی او) کے تحت ملک و مملکت کے امور چلائے جاتے رہے جبکہ جمہوری ادوار میں آئین میں ہونیوالی 25 ترامیم جمہوری حکمرانوں کے شہنشاہ معظم بننے کی خواہشات ہی کو عملی جامہ پہنانے کے مقصد کے تحت منظور کرائی گئیں۔ 
عمران خان کے چار سال کے قریب کے عرصۂ اقتدار میں تو آئین کو پرکاہ کی بھی اہمیت نہیں دی گئی اور اسمبلی کے ہوتے ہوئے بھی زیادہ تر صدارتی آرڈیننسوں کے ذریعے ’’باادب‘ باملاحظہ‘ ہوشیار!‘‘ والی سول شاہی حکمرانی کی مثالیں قائم کی جاتی رہی ہیں۔ گزشتہ ایک مہینہ تو اس آئین پر بہت بھاری گزرا جب اپوزیشن کی جانب سے آئین کی دفعہ 95 کے تحت قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی۔ اسکے بعد سے 10 اپریل کے آغاز تک حکمران پی ٹی آئی کی جانب سے آئین کی گردن مروڑنے کا ہر حربہ آزمایا جاتا رہا اور وزیراعظم سمیت حکومتی اکابرین ہی نہیں‘ سپیکر قومی اسمبلی اسدقیصر اور ڈپٹی سپیکر قاسم سوری بھی پارٹی کارکن ہی کی طرح آئین کو رگیدنے کے اس عمل میں شریک رہے۔ ہر کوشش کی جاتی رہی اور ہر ہتھکنڈہ اختیار کیا جاتا رہا کہ کسی طرح عدم اعتماد کی تحریک پر بحث اور ووٹنگ کی نوبت نہ آنے دی جائے۔ اس کیلئے ریاستی آئینی اداروں سے ٹکرائو مول لینے سے بھی گریز نہ کیا گیا جس سے یہ تاثر اجاگر ہوا کہ عمران خان صاحب کسی بھی صورت اقتدار چھوڑنے کو تیار نہیں اور آئین کی متعلقہ دفعات کی اپنی مرضی و منشائ￿  والی تشریحات کراکے خودکو ’’راج کریگا خالصہ‘ باقی رہے نہ کو‘‘ کی مثال بنانا چاہتے ہیں۔ جب ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے اسی فلسفہ پر مہرتصدیق ثبت کرنے کیلئے عدم اعتماد کی قرارداد آئین کی دفعہ پانچ کا سہارا لیکر مسترد کر دی اور یہ قرارداد پیش کرنے اور اسکی حمایت کرنیوالے قومی اسمبلی کے 198 ارکان بشمول اپوزیشن قائدین کو ملک سے غداری کا مرتب قرار دے دیا تو آئین کو ناکارہ بنانے والے ایسے اقدامات کا چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس عمر عطاء بندیال نے اپنے ازخود اختیارات کے تحت نوٹس لیا اور اپنی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کا پانچ رکنی بنچ تشکیل دیکر مسلسل پانچ روز تک اس کیس کی سماعت کی اور سات اپریل کو ڈپٹی سپیکر کی جانب سے دی گئی رولنگ اور اسکی بنیاد پر قومی اسمبلی تحلیل کرنے کیلئے وزیراعظم کی دی گئی ایڈوائس اور اس ایڈوائس کی بنیاد پر اسمبلی تحلیل کرنے کیلئے صدر مملکت کے جاری کردہ نوٹیفکیشن کو آئین سے متجاوز اقدام اور کالعدم قرار دے دیا اور قومی اسمبلی اور وفاقی حکومت کو تین اپریل والی پوزیشن پر بحال کرتے ہوئے سپیکر قومی اسمبلی کو 9 اپریل کے روز قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے اور تین اپریل والے ایجنڈے کے مطابق عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کرانے کی ہدایت کی مگر وزیراعظم عمران خان اور انکی حکومت کو آئین و قانون کی حکمرانی و عملداری کے برعکس محض اپنی انا کی تسکین ہی مقصود تھی جس میں آئین عملاً رولنگ سٹون بنا رہا۔ حتیٰ الوسع کوشش کی جاتی رہی کہ  9 اپریل کو بھی عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کی نوبت نہ آنے دی جائے جس کیلئے سپیکر نے آئین اور سپریم کورٹ کے فیصلہ کی پاسداری پر اپنے پارٹی قائد کے احکام اور انکی انا کی تسکین مقدم جانی جس کا اظہار انہوں نے 9 اپریل کی رات بارہ بجے سے پہلے قومی اسمبلی کے اجلاس میں استعفیٰ دینے کا اعلان کرتے ہوئے بھی کیا۔ وہ جن حالات میں بالآخر عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کی کارروائی کا آغاز کرانے پر مجبور ہوئے۔ وہ ہماری سیاسی‘ عدالتی اور آئینی تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں مگر آئین کی عملداری بہرصورت قائم ہونا تھی چنانچہ عدم اعتماد کی تحریک منظور ہونے کے بعد عمران خان اور انکی کابینہ کے ارکان اپنی خواہشات کے برعکس اقتدار سے محروم ہو کر گھر جانے پر مجبور ہوئے۔ آئین سے روگردانی کا یہ انجام 10 اپریل کو یوم دستور کے موقع پر قوم اور دنیا کے سامنے رونما ہوا مگر سابق حکمران پی ٹی آئی کے سرکش ذہنوں میں آئین و قانون کو کھلونا بنانے والی سوچ ابھی تک برقرار ہے جو متحدہ اپوزیشن کی نئی حکومت قائم ہونے کے بعد اس پر ’’امپورٹڈ‘‘ کا لیبل لگا کر ملک بھر میں اودھم مچاتے ہوئے قومی ریاستی اداروں کی بھد اڑانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔ یوم دستور پر پی ٹی آئی کے مظاہرے اور دھماچوکڑی درحقیقت دستور کی پاسداری و عملداری کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان تھا جسکے ماتحت قائم ریاستی ادارے آج اسے ایک آنکھ نہیں بھا رہے۔ پی ٹی آئی کے سربراہ سابق وزیراعظم عمران خان نے نہ صرف نئی حکومت کو تسلیم نہیں کیا بلکہ قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے انتخاب کی کارروائی سے پہلے قومی اسمبلی کی رکنیت سے اپنے اور پی ٹی آئی کے دوسرے ارکان کے مستعفی ہونے کا بھی اعلان کر دیا۔ میری رائے میں سیاست کا یہ انداز جمہوری سے زیادہ فسطائی سوچ کو پروان چڑھانے والا ہے جس میں اپنی ذات کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ تو جناب! ایسی سیاست میں ملک اور عوام کو درپیش اصل مسائل سے کیسے خلاصی دلائی جا سکتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن