ہم نے 75 سال پہلے 1947ء میں آزادی حاصل کی تھی لیکن ربع صدی بعد آج1973ء کے آئین کا 50 واں سال منا رہے ہیں اور وہ بھی اس وقت جبکہ پاکستان کی اکثریتی آبادی والا حصہ علیحدگی کے بعد بنگلہ دیش بن چکا۔اس مضمون میںقابل بحث بات یہ ہے کہ 12 مارچ 1949 کو آئین سازی کی قراردادپاس ہونے کے باوجود اتنا وقت کیوں لگا حتیٰ کہ پاکستان دو لخت ہو گیا۔
منقسم پنجاب، سندھ، اس وقت کے شمال مغربی سرحدی صوبہ اور بلوچستان کے آئین ساز اسمبلی کے اراکین کی اکثریت کا تعلق بنیادی طور پر مشرقی بنگال یا اتر پردیش سے تھا جو کہ بھارتی اکثریتی صوبہ تھا۔
ابتدائی طور پر، قائداعظم محمد علی جناح نے لاہور کو پاکستان کا دارالحکومت بنانے کی کوشش کی تاہم مسلم لیگ پنجاب کے رہنما میاں محمد ممتاز دولتانہ نے دلیل دی کہ صوبہ پہلے ہی تقسیم ہوچکا تھا اور وہ اپنے دارالحکومت کو مرکز کے حوالے نہیں کرسکتے۔ یہاں تک کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ کے بی محمد ایوب کھوڑو کو گورنر جنرل کی جانب سے کراچی کو ملک کا دارالحکومت بنانے کے لیے منظور کردہ قانون کے تحت معزول کرنا پڑا۔ ڈھاکہ یا ملک کی اکثریتی ریاست مشرقی بنگال کے کسی دوسرے شہر کو پاکستان کا دارالخلافہ بنانے پر بھی غور نہیں کیاگیا تھا۔ بنگالی بولنے والی اکثریت کو اس وقت دکھ پہنچا جب قائداعظم نے مشرقی بنگال کے دورے میں یہ اعلان کیا کہ صرف اردو ہی پاکستان کی قومی زبان ہوگی۔ ملک کے وزیر اعظم کا عہدہ بھی بنگال سے نہیں لیاگیا کیونکہ لیاقت علی خان یو پی کے جاگیردار تھے اوریو پی موجودہ ہندوستانی صوبے ہریانہ میں بڑی زمینوں کے مالک تھے۔
دستور ساز اسمبلی کے ارکان خاص طور پر ان صوبوں سے جوہندوستان کا حصہ بنے اور تقسیم شدہ پنجاب نے آئین سازی کے لیے مطلوبہ ابتدائی تائید کو پورا نہیں کیا اور نہ ہی ان خطوں میں نئے انتخابات کرانے کی تیاری کی جو اب ایک آزاد ملک، پاکستان بن چکا تھا۔ وزیراعظم لیاقت علی خان بھی ان میں شامل تھے۔ قائداعظم کی موت بھی ایک بہانہ بن گئی۔ مشرقی بنگال اسمبلی کے انتخابات میں ناکامی نے جہاں مسلم لیگ کو جگتو (متحدہ) فرنٹ نے شکست دی تھی اس نے اس وقت کے حکمران ٹولے میں بھی خوف پیدا کر دیا جس پر بیوروکریٹس نے مسلم لیگ کے رہنما بن کر ملک پر حکومت جاری رکھنے کے لیے 1935ء کے اس ایکٹ کواپنا لیاجسے پاکستان نے آزادی ملنے پر اپنایا تھا۔وہ آئین سازی اور پہلے انتخابات میں تاخیر کر رہے تھے کیونکہ مشرقی بنگال کو زیادہ نشستیں ملنی تھیںاور آبادی کی اکثریت بھی اْس صوبے/ ریاست سے تعلق رکھتی تھی۔ تاخیر اس وقت تک جاری رہی جب تک کہ عوامی مسلم لیگ کے رہنما حسین شہید سہروردی دونوں حصوں کے درمیان یکساںنمائندگی کی برابری پر متفق ہونے پر مجبور ہو گئے۔ اس مقصد کے لیے ون یونٹ اسکیم کے تحت صوبوں اور علاقوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ مغربی پاکستان قائم کریں اور لاہور اس کا دارالحکومت بنے۔ پاکستان کی مرکزی حکومت اب مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والی سول اور ملٹری بیوروکریسی کے مکمل کنٹرول میں تھی جس میں آرمی چیف جنرل ایوب خان وزیر دفاع کے عہدے پر فائز تھے اور چوہدری محمد علی سابق پرنسپل سیکرٹری وزیراعظم تھے جو پہلے آئین کے نفاذ کے لیے بل پیش کرنے میںکلیدی کردار کے حامل تھے۔
’’ہم پاکستان کے عوام اپنی دستور ساز اسمبلی میں فروری 1956ء کی 29 ویں تاریخ اور رجب 1375ھ کے17ویں دن اس آئین کو اپناتے ہیں، نافذ کرتے ہیں اور خود کویہ آئین دیتے ہیں‘‘،کی تمہید سے 1956ء کے آئین کا نفاذ کیاگیا۔قیام پاکستان کے نو سال بعد ملک کے آئین کی منظوری کا جشن جہانگیر پارک کراچی میں عوامی سطح پر منایا گیا جس میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے بعض مستقل ارکان سمیت متعدد ممالک کے معززین نے بھی خطاب کیا۔
بتایا گیا کہ دستور ساز اسمبلی کے اراکین، خصوصاً مشرقی پاکستان سے، بشمول اپوزیشن لیڈر حسین شہید سہروردی، کو وفاقی حکومت کی طرف سے یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ اگلے سال عام انتخابات کرائے جائیں گے۔ اور جب یہ مزید 1958ء تک کے لیے ملتوی کر دیے گئے تو سول حکمرانوں کی مدد کیلیے دستیاب ہونے کی بجائے جنرل محمد ایوب خان نے بغاوت کی اور ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا۔ سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی گئی اور بہت سے سیاسی رہنما ئوںں کو گرفتار کیا گیا اور بعد میں ان پر فوجی عدالتوں اور ٹربیونلز نے مقدمے چلا کر سزائیں سنائیں۔ آئین کی اس خلاف ورزی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا اور اس وقت کے چیف جسٹس محمد منیر نے فیصلے میں اسے ایک ’’غیر خونی انقلاب‘‘ قرار دیا۔ ملک کے دونوں حصوں یعنی مشرقی اور مغربی پاکستان میں ڈپٹی چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرز کا تقرر کیا گیا۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارغ التحصیل چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب نے ملک کے شہریوں کو پارلیمانی جمہوریت کے تحت حکومت کرنے کے قابل نہیں سمجھا اور صدارتی طرز حکومت کے ساتھ 'آئین' نافذ کیا۔جو صرف براہ راست انتخابات کے لئے ’’بنیادی جمہوریتوں ‘‘ پر مبنی تھا۔
انہوں نے ’’بنیادی جمہوریتوں‘‘ کو صدارتی الیکٹوریل کالج بناتے ہوئے اس کو صدر کے براہ راست انتخاب کا ذریعہ بنایا جو مقامی، ڈویژنوں اور صوبائی کونسلرزکا حصہ تھے۔ مارشل لاء اٹھا لیا گیا؛ سیاسی سرگرمیاں بحال ہوئیں اور سیاسی جماعتوں پر پابندی ختم کر دی گئی۔ چوہدری خلیق الزماں اور منظر عالم کی قیادت میں سابق مسلم لیگی رہنما ئوں کا ایک کنونشن کراچی میں منعقد ہوا اور جنرل ایوب خان ’’پاکستان مسلم لیگ ‘‘کے صدر منتخب ہوئے جو 'کنونشن لیگ' کے نام سے مشہور ہوئی جبکہ دوسری کی قیادت میاں ممتاز محمد خان دولتانہ کر رہے تھے جسے 'کونسل لیگ' کہا جاتا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کنونشن لیگ کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔
بھارت کے ساتھ 1965ء کی جنگ کے بعد جنرل ایوب کو ’’فیلڈ مارشل‘‘ کا خطاب دیا گیا جس کے بعد بنیادی جمہوریتوں کیلئے صدر کے عہدے کے ساتھ ساتھ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرائے گئے۔حزب اختلاف مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو اس بات پرقائل کرنے میں کامیاب ہوگئی کہ وہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے مقابلے میں اسکی امیدوار بنیں۔ انتخابات میں ایوب خان کی کامیابی کو بڑے پیمانے پرچیلنج کیا گیا۔ دونوں ونگز کے الیکٹورل کالج کے ممبران کی اکثریت (جنہوں نے فیلڈ مارشل ایوب خان کے ساتھ ساتھ کنونشن لیگ کے صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے ممبران کو ووٹ دیا تھا)،کے بارے میں یہ خیال کیا گیا کہ ان سب کو چند ہزار روپے ادا کیے گئے تھے۔
حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے ایوب حکومت کے خلاف ایک ایسی مسلسل مہم چلا ئی جو ملک گیر تحریک کی شکل اختیار کر گئی۔ اس نے صدارتی نظام کے خاتمے اور پارلیمانی جمہوریت کی بحالی کا مطالبہ کیا۔ شیخ مجیب الرحمان کی قیادت میں عوامی لیگ مشرقی پاکستان میں ایک اہم سیاسی قوت بن گئی۔ مغربی پاکستان میں صنعتی کارکنوں، طلباء اور صحافیوں نے بڑے پیمانے پراحتجاج کیا اور اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کی معزولی کی وجہ صدر ایوب خان کی طرف سے قبول کیے گئے ’’تاشقند اعلامیے‘‘ کی مخالفت کرنا سمجھی گئی،جس سے ان( صدر) کے خلاف سیاسی تحریک شدت اختیار کر گئی۔ اس تحریک نے پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام میں بھی کردار ادا کیا جس کی قیادت بھٹو نے اپنے ان نعروں کے ساتھ کی جیسے کہ’’اسلام ہمارا دین ہے‘‘، ’’جمہوریت ہماری سیاست ہے‘‘،’’ سوشلزم ہماری معیشت ہے ‘‘اور’’ تمام طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں‘‘۔ اسلام اور سوشلزم کو ایک ساتھ ملانے سے خاص طور پر پنجاب میں لوگوں کی بڑی تعداد نے بھٹو کی حمایت کی۔اس طرح جیسے جیسے سیاسی تحریک بڑھی، ایوب خان، جو ترقی کی دہائی منا رہے تھے، اعصاب کھو بیٹھے اور بیمار پڑ گئے۔ ان کے منظور نظر ماتحت جنرل آغا محمد یحییٰ خان اسی موقع کے منتظر تھے۔ پھروہ اور انکے ساتھی ایوب خان کو دستبردار ہونے پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ سیاسی اقتدار منتخب سویلین سپیکر کو سونپنے کی بجائے (جیسا کہ اس کے 1962 ء کے آئین کے تحت کہا گیا تھا)،یحییٰ خان کے حوالے کر دیاگیا جنہوں نے عام انتخابات کا وعدہ کرتے ہوئے مارشل لاء لگا دیا… ایک ایسا وعدہ جسے پاکستان میں چار غاصبوں میں سے کسی نے بھی پورا نہیں کیا۔. دریں اثناء بھٹو پہلے سے ہی ان کے رابطے میں تھے اور یحییٰ خان مجیب سے انہیں ملک کا صدربرقرار ررہنے کی یقین دہانی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ (جاری)