مائینس ون یا مائینس آل ؟

ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں اگر جناب آصف علی زرداری کے ساتھ اظہار ہمدردی کرنے کی کوشش کی تھی تو، …؎
کچھ اس میں تمسخر نہیں، واللہ نہیں ہے!
ہم پوری دیانتداری کے ساتھ یہ سمجھتے ہیں کہ زرداری صاحب کے سارے امیج کا ستیاناس کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ ان کے مشیروں کا ہے مگر اس ’’کارخیر‘‘ میں اس سے بھی بڑھ کر حصہ خود موصوف کا اپنا ہے کہ وہ سعادت مندی کے ساتھ اس ’’احمق ایسوسی ایشن‘‘ کو اپنی آنکھ کا تارا بنائے ہوئے ہیں۔ تازہ ترین واردات یہ سننے میں آ رہی ہے کہ ایوان صدر نے میڈیا میں موجود بعض سرکش عناصر کی گو شمالی کا ’’نیک ارادہ‘‘ کر لیا ہے اور آغاز کے طور پر دو چار ٹی وی اینکروں اور کالم نگاروں کی متعلقہ سی ڈیز یا کٹنگ چینل اور اخبار مالکان کو ارسال کی جانے لگی ہیں۔ ایوان صدر سے موصول ہونے والے ان پراسرار پیکٹوں میں نجانے اور کیا کیا شکایتی میٹریل موجود ہوتا ہے، مگر یہ سلسلہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ بلکہ بھگت چکے ہیں۔
اس حوالے سے پہلی گزارش تو یہ ہے کہ آپ کی میڈیا بالعموم اور پارٹی و حکومتی ٹیم بالخصوص بلا کی نالائق ہے کہ بجائے ان سرکش عناصر کو دلیل، دوستی، محبت یا ترلے کے ساتھ منانے کے، آپ نے ایک انتہائی مریل سا روٹ اپنا لیا ہے۔ اس دوڑ میں خالص تھارو بریڈ گھوڑا بننے کی جگہ، آپ شکایتی ٹٹو بننے پر مصر ہیں کیا آپ بھول گئے ہیں کہ مشرف نے بھی میڈیا کو قابو کرنے کیلئے یہی بے ہودہ سا روٹ اپنایا تھا تو پھر آپ نے اس کا انجام دیکھا؟ آپ کا وزیر خورشید شاہ جسے ابھی کل تک ہم ایک معقول آدمی سمجھنے کا ارتکاب کرتے رہے ہیں فلور آف دی ہائوس پر ٹی وی اینکروں کے لتے لیتا رہا ہے۔ تو اس کے جواب میں وہ اینکروں اور کالم نگاروں سے کیا توقع رکھتا ہے کہ وہ آپ کی حمدوثنا کریں؟ دوسری گزارش یہ ہے کہ مالکان اپنی گوناگوں وضعداریوں اور جملہ مجبوریوں کا شکار ہو کر زیادہ سے زیادہ ایک آدھ آنچ کم کرنے کو تو کہہ سکتے ہیں، اپنے ٹی وی پروگراموں اور اخباری کالموں کو خصی ہرگز نہیںکروا سکتے کہ پھر عوام میں پذیرائی صفر رہ جائے گی کہ عوام حکومت پر تنقید سن کر کم از کم یہ اطمینان ضرور محسوس کرتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی ایسا ہے ضرور جو اس ملک میں رہ کر بھی جاگ رہا ہے۔ تاہم اگر مالکان میں سے کچھ ایسے بھی ہوں جو آج بھی کمزور وکٹ پر کھیلنا گوارا کرتے ہوں تو ان کے اداروں سے وابستہ کالم نویسوں، صحافیوں اور اینکروں کو ہمارا مخلصانہ مشورہ تو یہی ہے کہ آنکھ بند کرکے وہ ادارہ چھوڑ دیں جو عزت، رزق اور پذیرائی آپ کا مقصد ہے، وہ آپ کو سرراہ بھی مل جائے گی۔ مگر اس کے لئے یہ بھی اولین شرط ہے کہ آپ جو کچھ بھی کہیں، لکھیں یا کریں، وہ ملکی مفاد کے منافی نہ ہو اور آپ کی اپنی پسند ناپسند کا دخل اس میں کم سے کم ہو۔
پچھلے ایک سال کے دوران ہم آصف علی زرداری کی ٹیم کے تقریباً ہر فرد سے کئی کئی بار مل چکے ہیں۔ شاید ہی کوئی وزیر مشیر ایسا ہو جو ہمارے ریڈار میں نہ آتا ہو، مگر ماسوائے ایک سلمان فاروقی، پرنسپل سیکرٹری کے ہمیں اس میلہ مویشیاں میں ایک بھی معقول اور صائب الرائے شخص دکھائی نہیں دیا۔ بلکہ زیادہ تر تو ایسے ہیں جو کسی بھی کھیتی یا ادارے کی ’’ڈی مارکٹنگ‘‘ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ یعنی اگر کسی بہت بڑے ادارے کا ستیاناس کرنا مقصود ہو تو ان احباب میں سے فقط دو ایک دانے ہی آپ فرنٹ ڈیسک پر بٹھا کر تماشہ دیکھیں کہ یہ لوگ اپنے کام میں کس حد تک ’’ماہر ہیں۔ ان میں سے دو ایک کی چھانٹی تو ہو چکی ہے اور سنتے ہیں کہ دو ایک مزید ہیں جو عنقریب فارغ البال ہونے والے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ اب تک جو نقصان یہ نادان دوست آصف علی زرداری، اس کی جماعت اور حکومت کو پہنچا چکے ہیں، کیا اس کا ازالہ کبھی ہو سکے گا؟ اور تو اور، گورنر پنجاب قبلہ سلمان تاثیر کو بھی یونہی بیٹھے بٹھائے اچانک نجانے کیا ہوا ہے کہ وہ پھر سے وہی ایک سال پرانی پراسرار سی باتیں اور حرکتیں کرنے لگے ہیں۔ آپ کا تازہ فرمان یہ ہے کہ ’’جو لوگ زرداری کی مخالفت کر رہے ہیں، وہ دراصل پاکستان کے مخالف ہیں‘‘ لاحول ولا قوۃ! اس سے زیادہ بھلا کوئی کیا تبصرہ کرے گورنر صاحب کے ان افکار عالیہ پر۔
گورنر صاحب کی معلومات میں اتنا اضافہ کرنا بہرحال ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ ہم ذاتی طور پر آصف علی زرداری کو ناپسند نہیں کرتے اور نہ ہی ہمارے پاس اس کا کوئی معقول جواز ہے مگر زرداری کے کارہائے نمایاں جب بھی ہماری نظر سے گزرتے ہیں، بخدا قلم اور زبان سے تنقید خود بخود نکلنے لگتی ہے، اب اگر آپ اس تنقید کو مخالفت سمجھیں تو یہ آپ کا حسن طلب ہی ہے اور کچھ نہیں۔ ہماری کوشش صرف اتنی سی ہوتی ہے کہ شاید حضرت صاحب اب بھی سمجھ جائیں اور وہ نظام جو بڑی مشکل کے ساتھ واپس پٹڑی پر چڑھا ہے، کہیں بار دیگر ڈی ریل نہ ہو جائے کہ ہماری اطلاع کے مطابق واشنگٹن، لندن، دبئی، جدہ اور پاکستان میں اس وقت کم وبیش چودہ پندرہ متوقع نگران وزیر اپنے اپنے لیپ ٹاپ پر پاکستان کو شاہراہ ترقی پر دوڑتا دکھاتے نظر آتے ہیں۔ یہ احباب بڑی شدت کے ساتھ آئندہ آنے والے بنگلہ دیشی ماڈل سیٹ کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور بعض ایک نے تو اپنے اپنے متعلقہ اداروں سے دو دو سال کی چھٹی بھی مانگ لی ہے۔ اس لئے خدارا، زرداری صاحب، میاں صاحب ودیگر سیاسی دوستو، پہلی فرصت میں ہی کسی دور افتادہ جزیرے پر بیٹھ کر اپنے اپنے بنیادی معاملات سلجھا لو اور کوشش کرو کہ یہی لنگڑا لولا نظام جڑیں پکڑ لے اور کسی کو بامر مجبوری کوئی ’’راست اقدام‘‘ نہ کرنا پڑے۔ بظاہر تو ماحول ’’مائینس ون‘‘ کا بنتا نظر آتا ہے یا کم از کم آج اخبارات میں چھپنے والی سوات کی ایک تصویر سے تو یہی لگتا ہے، مگر اس قماش کی پلاننگ بعض اوقات ’’مائینس آل‘‘ کا روپ بھی دھار لیا کرتی ہے، ذرا اس کا دھیان کر لیں!

ای پیپر دی نیشن